لاڑکانہ ٹرانسپورٹر مافیا کا راج بس ٹرمینل ویران غیرقانونی اڈے آباد

217

لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) 10 لاکھ پر مشتمل سندھ کے چوتھے بڑے شہر میں آج بھی سفری سہولیات سوالیہ نشان ہیں، جہاں مسافر بھاری کرایے ادا کرکے اپنی منزلوں کی جانب پہنچنے پر مجبور ہیں۔ لاڑکانہ شہر میں 27 ہزار چنگ چی رکشے کے علاوہ مختلف مقامات جن میں گھنٹی پھاٹک، شیخ زید موڑ، رتو ڈیرو روڈ، اتاترک ٹاور، باقرانی روڈ پر چھوٹے بڑے ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں، جس سے جہاں شہریوں کو آمد و رفت سمیت ٹریفک میں خلل ہونے سے پریشانی کا سامنا ہے۔ شہر کے رتو ڈیرو روڈ پر قائم نیو بس ٹرمینل ویرانی کا منظر پیش کررہا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ مافیا شہر کے مختلف علاقوں میں غیرقانونی طور پر اڈے قائم کیے ہوئے ہیں، جن کیخلاف تاحال کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔ اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر بہادر جلبانی کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک سندھ حکومت کی جانب سے کرایوں کی فیئر پرائز لسٹ فراہم نہیں کی گئی جبکہ نیو بس ٹرمنل پر پانی، بجلی سمیت دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے، جہاں ڈیزل، پیٹرول، اسپیئر پارٹس، ٹائر مہنگے ہوچکے ہیں، جس وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ زیادہ کرایے وصول کریں۔ دوسری جانب ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو تبدیل کرکے ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود نہ تو لاڑکانہ میں ڈی ٹی اے کا اپنا ذاتی دفتر موجود ہے اور نہ ہی کارروائی کرنے کے لیے کنوینس اور عملہ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کے 2000ء کے بعد اتھارٹی کو چالان کرنے سمیت جرمانے عائد کرنے کے بھی اختیارات واپس نہیں دیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے مرہون منت کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ لاڑکانہ میں موجود ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز سرہیو کو ضلع لاڑکانہ کے علاوہ قنبر شہدادکوٹ اور دادو اضلاع کے اضافی چارج بھی حاصل ہیں، تاہم ان کے پاس کل عملے کی تعداد 3 اور کنوینس تک موجود نہیں ہے۔ ایک جانب جہاں وزارت ٹرانسپورٹ سندھ کی جانب سے لاڑکانہ میں پیپلز ٹرانزٹ انٹر سٹی بس سروس کا آغاز کیا گیا ہے، جس منصوبے پر بھی حکومت سندھ کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ بسز پرانی اور ناکارہ، اضافی کرایے اور ٹوٹے شیشوں کے باعث شہری معیاری سفری سہولیات سے محروم ہیں تو وہیں سندھ ہائی کورٹ سمیت وزارت ٹرانسپورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اب تک ضلع لاڑکانہ سے مختلف شہروں کی جانب آنے جانے والی مسافر بردار چھوٹی بڑی گاڑیوں میں سے گیس سیلنڈرز کا بھی مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ٹی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اب تک 60 فیصد گاڑیوں سے گیس سیلنڈرز کا خاتمہ کرچکے ہیں اور دیگر کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2016ء کے بعد اب تک سندھ حکومت کی جانب سے مختلف روٹس پر کرایے روائیز نہیں کیے گئے اور نہ ہی فیئر لسٹ جاری کی گئی ہے، جس وجہ سے مختلف روٹس پر ٹرانسپورٹر اضافی کرایے وصول کررہے ہیں، تاہم ہمارے پاس تحریری طور پر کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی لیکن زبانی شکایات پر بھی ہم نے رواں ماہ مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑی مالکان کی جانب سے اضافی وصول کیے گئے کرایے واپس کروا کر 85 ہزار روپے مسافروں کو واپس کروائے جبکہ 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں 2000ء سے قبل والے اختیارات دے دیے جائیں تو مسافروں کو مزید سہولیات فراہم کرسکیں گے جبکہ اندرون شہر میں قائم کیے گئے چھوٹے اڈوں کو ختم نہیں کرسکتے جو اختیار ضلعی انتظامیہ کا ہے۔