مدرسہ ڈسکورس

1113

امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے جتنے بھی تعلیمی نظام ہیں، اُن میں ایک حصہ لازمی مضامین کا ہوتا ہے، جو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک ہر فیکلٹی میں شامل ہوتے ہیں، مثلاً: ہمارے نظامِ تعلیم میں لازمی مضامین یہ ہیں: اردو، انگلش، ریاضی (ہیومنٹیز، آرٹس اور سوشل سائنسز کے شعبہ جات کے لیے سائنسی علوم کی مبادیات پر مشتمل) جنرل سائنس اور مطالعہ پاکستان وغیرہ۔ دوسری فیکلٹیز میں اسلامیات بھی لازمی مضمون کے طور پر شامل ہے، مگر چونکہ دینی تعلیم بنیادی طور پر دینی علوم پر مشتمل ہے، لہٰذا اُن کے لیے اسکول کی سطح کی اسلامیات کی ضرورت نہیں ہے۔
اصولی طور پر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں جتنے بھی تعلیمی نظام اور ادارے موجود ہیں، اُن سب میں عصری لازمی مضامین یکساں ہونے چاہییں، لیکن ایسا نہیں ہے، کیمبرج سسٹم اور اَشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے نظامِ تعلیم پر حکومت کا کنٹرول سرے سے ہے ہی نہیں، اس کا اعتراف خود وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نیشنل کریکولم کونسل میں کرچکے ہیں اور وہ یہ بھی فرماچکے ہیں کہ سرِدست ہم سرکاری تعلیمی اداروں کو اس معیار پر لانے کے وسائل اور استعداد نہیں رکھتے۔ نیز حکومت ایک ہی جست میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے دینی مدارس کے لیے عصری مضامین کی تعلیم کی پوری سہولتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس کے لیے تو بیسیوں ہزار اساتذہ درکار ہوں گے اور نصابی کتب، لائبریری اور لیبارٹری کی سہولتوں کی فراہمی اس کے سوا ہے۔
اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان نے وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ اشتراکِ عمل کے کچھ اصولی فیصلے کیے ہیں، ان کا پورا میکنزم تیار کرنے میں وقت لگے گا اور ایسا عملاً ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی جَست میں پرائمری سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک عصری تعلیم کا سلسلہ پورے زور شور کے ساتھ جاری ہوجائے، اسے پرائمری اور مڈل سے لے کر چلنا ہوگا اور بتدریج اگلے درجات میں ترقی ہوتی رہے گی۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسے کتنے ادارے ہیں جو عصری تعلیم کا نظام اپنے وسائل سے پورا کرسکتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہیں حکومت کی معاونت درکار ہوگی اور حکومت کی معاونت کا نظام بھی مؤثر تب ہوسکتا ہے، جب عصری مضامین کے اساتذہ کے ہائر اینڈ فائر یعنی تقرر وبرطرفی کا اختیار مدارس کے منتظمین کے پاس ہو، ورنہ آج محکمۂ اوقاف کی مساجد کا حال آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اوقاف کے مالی وسائل محکمۂ اوقاف والے لے جاتے ہیں اور مسجدوں کی ضروریات کو لوگ چندوں سے پورا کرتے ہیں اور کئی جگہ حکومت کے برسرِ ملازمت عملے کے افراد ڈیوٹی ہی نہیں دیتے اور لوگ اپنے چندوں سے امام وخطیب، مؤذن اور خادمین کا انتظام کرتے ہیں، اسی طرح ان مساجد کی بنیادی ضروریات اور تزئین وآرائش بھی عوام اپنے وسائل سے کرتے ہیں۔ کراچی میں محکمۂ اوقاف کی سب سے زیادہ آمدنی عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے ہے، آپ مزار سے ملحق مسجد کا تقابل کلفٹن کی دیگر مساجد سے کرلیجیے، آپ کو فرق معلوم ہوجائے گا۔ نیز اوقاف کی مساجد سے ملحق تعلیم وتعلّم کا بھی کوئی انتظام نہیں، صرف لاہور میں سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار پر محکمۂ اوقاف کے زیرِ اہتمام جامعہ ہجویریہ قائم ہے، یقینا بعض دیگر بزرگوں کے مزارات سے متصل بھی دینی درس گاہیں ہیں، لیکن اکثردرگاہوں کا اُن بزرگوں کے علمی شعار کے برعکس دینی تعلیم وتربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بعض مزارات سے متصل غیر شرعی حرکات بھی ہوتی ہیں جو قابلِ افسوس ہیں۔
ایک مفروضہ یہ قائم کرلیا گیا ہے کہ دینی مدارس انتہا پسندی کی تعلیم دیتے ہیں، یہ حقائق کے برعکس ہے، یہ مدارس وجامعات اور مکاتبِ فکر قیامِ پاکستان سے پہلے بھی موجود تھے، لیکن انتہا پسندی یا عسکریت پسندی کا کبھی الزام بھی نہیں لگا، اسی طرح قیامِ پاکستان کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا۔ یہ رجحان بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں شروع ہوا اور ایران عراق جنگ کے نتیجے میں اس کے محرّکات خارجی تھے، اس کی بائی پروڈکٹ کے طور پر پاکستان میں فرقہ واریت پر مبنی پراکسی جنگ مسلط کردی گئی تھی۔ جب سلامتی کے اداروں نے اسے کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ رجحان ختم ہوگیا اور اب فضا کافی حد تک بہتر ہے اور اب باہم برسرپیکار وہی لوگ اداروں کے مقربین میں شامل ہیں، ان کے زیر اثر ہیں اور یہ اچھی علامت ہے، بشرطیکہ مستقبل میں خدانخواستہ حالات کی تبدیلی کی بناپر ترجیحات نہ بدل جائیں۔ مکاتبِ فکر اور مسالک پہلے بھی موجود تھے، اب بھی ہیں اور مصنوعی طریقے سے انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے تعلیم وتربیت کے ماحول کو بہتر بنانا ہوگا اور نفرت انگیزی برپا کرنے والوں سے قانون کے مطابق نمٹنا ہوگا۔
مکاتبِ فکر ہنود ویہود میں بھی ہیں، مسیحیوں میں بھی ہیں، امریکا میں صرف مسیحی پروٹیسٹنٹ فرقے کے تین سو تیرہ ذیلی مکاتبِ فکر (Denominations) ہیں۔ اہلِ مغرب مذہبی اور نسلی گروہوں کو اپنے حق میں ایک مثبت قدر کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں تنوُّع (Diversity) ہے، تکثیر (Pluralism) اور تکثیریت (Plurality) ہے۔ ہمارے ہاں یہ بھی تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلک یا مکتبِ فکر اسلام کی ضد ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ مسلک یا مکتبِ فکر اسلام کی تعبیر ہے اور حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے دلائل کی روشنی میں تعبیر وتشریح میں اختلاف ہوسکتا ہے، اس میں صحیح اور غلط، درست اور نادرست، افضل ومفضول اور راجح ومرجوح کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے، ان چیزوں کو استدلال کی میزان پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ طاقت کے ذریعے حق وباطل کا فیصلہ کرنے کی روش اختیار کی جائے۔ بعض چیزیں مختلف اسباب کی بنا پر قومی مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں، ورنہ ہماری پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر، ٹیلی ویژن چینلوں کے اسٹوڈیوز میں اور پبلک جلسوں میں یہ جو آئے دن شور شرابا ہوتا ہے، کوئی ہمیں بتائے کہ اس کے اسباب ومحرکات کیا ہیں۔
یہاں قارئین کی آگاہی کے لیے ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جولائی 2019ء میں IBCC یعنی انٹر بورڈز چیئرمین کمیٹی کے اعلیٰ افسران کے ایک گروپ نے ہماری تنظیمات کا معائنہ کیا، تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے مرکزی دفتر میں تشریف لائے، ہمارے نظامِ امتحانات، پرچے بنانے، پرچے جانچنے، نتائج مرتب کرنے سے نتائج کے اعلان تک پورا نظام دیکھا۔ ہمارے آئی ٹی کے شعبہ کو مصروفِ عمل دیکھا، ہمارے پرائیویسی کے نظام کا بھی جائزہ لیا اور انہوں نے نہایت فراخ دلی سے کہا کہ بعض اعتبارات سے آپ کا نظام ہم سے بہتر ہے۔ انہوں نے پوچھا: آپ اسناد کی تصدیق یعنی Verification کس طرح کرتے ہیں۔ ہمارے متعلقہ شعبے کے ذمے داران نے بتایا کہ اس کے تین اسٹیج ہوتے ہیں، انہوں نے 2007ء کی ایک سند تصدیق کے لیے پیش کی، ہمارے عملے نے ان کے سامنے سسٹم کے مطابق چیک کر کے بتایا کہ اس کی تصویر میں ٹمپرنگ کی گئی ہے، وہ حیرت زدہ بھی ہوئے اور حد درجہ مطمئن بھی ہوئے اور کہا: اب ہم آپ کی اسناد کی تصدیق آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ جائزہ وفد دیگر تنظیمات کے نظام کا جائزہ لینے کے لیے ان کے دفاتر میں بھی گیا اور ہمیں اُن کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا وفد معائنے کے لیے آئے گا، ہم اُن کو بھی خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں اور اگر ان دونوں موقّر اداروں نے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی مثبت تجاویز پیش کیں تو اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اُن پر عملدرآمد بھی کریں گے۔ ہمارا اصولی مطالبہ تو یہی چلا آرہا ہے کہ ہماری پانچوں تنظیمات کے امتحانی بورڈز قانونی طور پر تسلیم کیے جائیں اور اگر اس کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی ضرورت ہو تو اس عمل کو بھی مکمل کیا جائے، ہماری خواہش ہے کہ ہمارا نظام ملک میں روبہ عمل دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری بورڈز کے مقابلے میں بہتر ثابت ہو۔
چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہم نے یہ بھی کہا: قربانی کی کھالیں جلدی تلف ہونے والا آئٹم ہے، اس کی زندگی بارہ گھنٹے سے زائد نہیں ہوتی تاوقتیکہ اسے نمک لگاکر ٹریٹ نہ کیا جائے۔ شوکت خانم، ایس آئی یو ٹی، عالمگیر، سیلانی، ایدھی ٹرسٹ سمیت رفاہی اداروں کے پاس تمام علاقوں میں ورکر دستیاب ہی نہیں جو لوگوں کے گھروں سے جاکر کھالیں اٹھائیں، صرف بڑے شہروں میں دعوتِ اسلامی یا الخدمت کا کسی حد تک نیٹ ورک موجود ہے۔ ایک فی صد قربانی کرنے والے بھی اپنی قربانی کی کھال اٹھاکر کسی من پسند دینی یا رفاہی ادارے کو پہنچانے کے روادار نہیں ہوتے۔ چند برسوں سے قربانی کی کھالوں کی قیمتیں بہت تیزی سے گر چکی ہیں اور اب یہ عمل اتنا پرکشش نہیں رہا، نیز گزشتہ چند برسوں سے دینی مدارس وجامعات کے لیے قربانی کی کھالوں کے اجازت نامے جاری نہیں کیے جارہے اور اس عمل کو انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے، ہمارے وہ ادارے جو گزشتہ نصف صدی سے کام کر رہے ہیں، بیوروکریسی کا رویہ اُن کے ساتھ بھی ناگفتہ بہ ہے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے پالیسی سازوں، بیوروکریسی، سیاسی حکمرانوں اور سلامتی کے اداروںکے پاس متبادل انتظام کیا ہے، یہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں ’’خیر کا راستہ روکنے‘‘ کا گناہِ بے لذت کیا جارہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی اداروں کے تحفظات حقائق پر نہیں بلکہ مفروضوں پر مبنی ہیں، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اُن کے وفود آئیں اور ہمارے اداروں کو وزٹ کریں، امید ہے وہ اچھا تاثر لے کرجائیں گے۔ ہم یہ بات برملا کہنا چاہتے ہیں کہ مسجد ہو یا مدرسہ، اگر کہیں کوئی کام ریاست کے مفاد کے منافی ہورہا ہے یا کوئی ادارہ ملک دشمن عناصر کے لیے کمین گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے، تو حکومت شواہد کے ساتھ ایسے عناصر کے خلاف ایکشن لے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لائے، ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن ثبوت وشواہد کے بغیر مفروضوں کی بنا پر رائے قائم کرنایا بدگمانی کرنا یا مشتبہ قرار دینا شریعت اور آئین وقانون کی رُو سے جائز نہیں ہے۔