دنیا اور خدائی منصوبہ

1160

امریکا ہو یا یورپ، بھارت ہو یا اسرائیل، چین ہو یا روس، سیکولر عناصر ہوں یا لبرل عناصر سب کی ایک ہی خواہش ہے۔ اسلام کو ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، قومی اسٹیج اور عالمی اسٹیج سے ’’گڈبائے‘‘ کہہ دیا جائے۔ اتفاق سے جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کی تمنا بھی یہی ہے۔ خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے لائق شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ گاہے گاہے اپنے کالموں میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی مفکرین اور اسلامی تحریکوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں یہی ’’کارنامہ‘‘ ایک نئے انداز میں انجام دیا ہے۔ خورشید ندیم کے اسلام پر حملے کی نوعیت کے اندازے کے لیے ان کے کالم کا اقتباس حاضر ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اخلاقیات اور سیاست کے مابین مضبوط رشتہ دو صورتوں ہی میں قائم ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی الہامی منصوبے کے تحت اور الٰہی مداخلت سے نیک لوگ اقتدار تک پہنچ جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست کو ایک اداراتی بندوبست کے تابع کردیا جائے جس کی نگرانی اجتماعی شعور کے سپرد ہو۔ پہلی صورت کی عملی مثال خلافت راشدہ ہے۔ یہ ایک الٰہی منصوبہ تھا۔ قرآن مجید نے سورہ نور میں اس کو بیان کیا ہے۔ ختم نبوت کے بعد آسمانی مداخلت کا یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اب صرف دوسری صورت باقی ہے۔ اس کی عملی مثال مغرب کا معاشرہ ہے۔ مغرب میں ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد، ایک طرف اقتدار ایک اداراتی نظم کے تابع ہوگیا اور دوسری طرف عوام کا اخلاقی و سیاسی شعور اس سطح پر پہنچ گیا جہاں اگر کوئی مروجہ اخلاقیات سے انحراف کرے تو نظام منحرف کو ا‘گل دیتا ہے۔ کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ سماجی اخلاقیات سے متصادم رویے کے ساتھ نظام کا حصہ رہ سکے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 6 اگست 2019ء)
خورشید ندیم کے بقول اخلاقیات اور سیاست کو باہم مربوط کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ خدائی مداخلت سے کوئی ’’الٰہی منصوبہ‘‘ سامنے آئے یا یہ کہ سیاست کو ایک اداراتی بندوبست کے تابع کردیا جائے۔ خورشید ندیم کے مطابق خلافت راشدہ ایک الٰہی منصوبہ تھا مگر ختم نبوت کے بعد ریاستی زندگی میں خدائی مداخلت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جن لوگوں کو خدا اور مذہب پر ایمان نہیں لانا ہوتا ان کا پیغمبر بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی قوم کی عظیم اکثریت نے انہیں پیغمبر اور ان کے منصوبہ حیات کو الٰہی منصوبہ ماننے سے انکار کردیا۔ ابوجہل اور ابولہب بھی رسول اکرمؐ پر آخری وقت تک ایمان نہ لائے۔ خدا کا شکر ہے کہ خورشید ندیم اسلام پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان کے ایمان کا نقص یہ ہے کہ وہ اسلام کو ’’کامل‘‘ اور ’’لازمانی‘‘ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک چوں کہ رسول اکرمؐ پر نبوت ختم ہوگئی اس لیے اب اسلام کے حوالے سے کسی کے منصوبے کو نہ پیغمبرانہ تسلیم کیا جائے گا نہ اسے الٰہی منصوبہ قرار دیا جاسکے گا۔ حالاں کہ قرآن کہتا ہے کہ دین کو مکمل کردیا گیا ہے اور رسول اکرمؐ کا فرمان ہے کہ ان کی شریعت آفاقی بھی ہے اور لازمانی بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک ’’دائمی اصولِ حیات‘‘ ہے۔ چناں چہ اسلام موثر بہ ماضی بھی ہے، موثر بہ حال بھی اور موثر بہ مستقبل بھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ختم نبوت کا تصور اسلام کی کاملیت اور دائمیت کی علامت ہے مگر خورشید ندیم اس سے یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ اب قیامت تک سیاست الٰہی منصوبے سے محروم یا بیگانہ ہوگئی ہے۔ اس تصور کے تحت خورشید ندیم خدا پر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ اس نے ایک زمانے تک تو سیاست کو دین کے تابع رکھا مگر ایک زمانے کے بعد خود خدا نے اس بات کی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہ اجتماعی زندگی ریاست و سیاست کو دین کے تابع کرے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خدا ایک دائمی وجود ہے۔ چناں چہ اس کے دین کو بھی دائمی ہی ہونا چاہیے تھا اور اسلام بلاشبہ ایک دائمی مذہب ہے۔
بلاشبہ خلافت راشدہ عہد رسالتؐ کے بعد ہماری تاریخ کا کامل ترین دور ہے جس کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی مگر ملوکیت کفر اور شرک پہ نہیں کھڑی تھی بلکہ اس کا نقص یہ تھا کہ وہ عہد رسالتؐ اور عہد خلافت کے مقابلے میں ’’ناقص‘‘ تھی۔ انسان ’’بیمار‘‘ بھی ہوجاتا ہے مگر بیمار آدمی کو بیمار کہا جاتا ہے ’’مردہ‘‘ نہیں کہا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی ہم سب جانتے ہیں کہ ’’علاج‘‘ سے بیماری دور ہوجاتی ہے اور مریض ’’صحت یاب‘‘ ہوجاتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے بعد ہماری سیاست بیمار ہوگئی مگر اس سیاست کو عمر بن عبدالعزیز فراہم ہوئے تو بیمار سیاست اچانک صحت یاب ہوگئی اور اپنی اصل کی طرف لوٹ گئی۔ خیر عمر بن عبدالعزیز تو بہت بڑی شخصیت ہیں ہماری تاریخ میں تو بعض بادشاہوں تک نے سیاست کو دین کا تابع بنا کر دکھایا ہے۔ اقبال نے اورنگ زیب عالمگیر کو اسلامی تاریخ کے ترکش کا آخری تیر قرار دیا ہے اور مفسر قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کو اورنگ زیب کے بعد برصغیر کی ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی شخصیت قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم نے 20 ویں صدی میں مسلمانوں کو سب سے بڑی اسلامی مملکت مہیا کی اور اسے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دے کر بتایا کہ اسلام جتنا Relevent عہدِ خلافت میں تھا اتنا ہی Relevent عہد حاضر میں ہے۔ کیا خورشید ندیم کو نظر نہیں آتا کہ خود قیام پاکستان کا تجربہ ایک ’’الٰہی منصوبے‘‘ کا حامل تھا۔ بلاشبہ اس منصوبے کی کوئی شہادت قرآن میں موجود نہیں مگر ہم اس کو عقلی دلائل سے ثابت کرسکتے ہیں کہ قیام پاکستان کے تجربے کی پشت پر صرف تاریخی قوتیں نہیں ماورائے تاریخ قوتیں یا Meta Historica Forces بھی کام کررہی تھیں۔
خورشید ندیم نے یقینا اقبال کو پڑھا ہوگا مگر وہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اس پہلو سے آگاہ دکھائی نہیں دیتے کہ اقبال کے یہاں اسلام ایک ’’دائمی امکان‘‘ کی حیثیت سے زیر بحث آیا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل چیز ایمان ہے۔ اگر آج سیدنا ابراہیمؑ کے جیسا ایمان پیدا ہوجائے تو آگ کے گلزر بننے کا معجزہ پھر رونما ہوسکتا ہے۔ اقبال کا ایک اور شعر ہے۔
ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا کسی کو حکومت دیتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ کسی کو اپنا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ کسی کو علم و اشیا کی جہانگیری عطا کرتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ نبوت ختم ہوگئی بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہوئے وہ ایمان پیدا نہیں کرپارہے جو معجزے یا کرامات دکھا سکتا ہے۔
کبھی خورشید ندیم نے غور کیا کہ اقبال کے یہاں ’’مرد مومن‘‘ کا تصور ’’ماضی کی شے‘‘ کے طور پر نہیں ایک ’’دائمی تصور‘‘ کی حیثیت سے زیر بحث آیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
کیا یہ ماضی کے کسی کردار کا بیان ہے؟ نہیں۔ یہ مسلم تاریخ کے ایک دائمی کردار کا بیان ہے۔ اقبال نے اس کردار کی تخلیق کا ’’فارمولا‘‘ بھی بنادیا ہے۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مومن صرف ماضی کی ’’Product‘‘ نہیں۔ مسلمان چاہیں تو اپنی ’’روحانی کارخانے‘‘ میں آج بھی ’’چار عناصر‘‘ کے ذریعے مومن ’’ڈھال‘‘ سکتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی ’’روحانی ٹیکنالوجی‘‘ کبھی ’’پرانی‘‘ یا ’’ازکار رفتہ‘‘ نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے مسلمان اس ٹیکنالوجی سے غافل ہوگئے ہیں۔ اقبال کے عظیم ترین شعروں میں سے ایک شعر یہ ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کا یہ شعر بتارہا ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب رسول اکرمؐ سے مسلمانوں کی ’’بے وفائی‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی بے وفائی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سیرت طیبہ کے نمونے پر عمل کرنے والے نہیں رہے۔ اقبال نے خدا کی زبان سے کہلوایا ہے کہ اگر مسلمان رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ پر عمل کرنے لگیں تو ریاست و حکومت کیا وہ لوح و قلم کے مالک بن سکتے ہیں۔ یہ امکان بھی دائمی ہے۔ مسلمان آج سیرت طیبہؐ کی پیروی کرنے لگیں تو انہیں آج لوح و قلم کا تحفہ عطا ہوسکتا ہے۔ مسلمان پچاس سال بعد یہ کام کرنے لگیں گے تو انہیں پچاس سال کے بعد لوح و قلم کی دولت عطا کردی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غامدی اور ان کے شاگرد خورشید ندیم دراصل اسلام اور اس سے مسلمانوں کے تعلق کی معنویت کو سمجھتے ہی نہیں۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ مغرب میں عوام کا اخلاقی و سیاسی شعور اس سطح پر پہنچ گیا ہے کہ اگر کوئی مروجہ اخلاقیات سے انحراف کرے تو نظام منحرف کو اگل دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید کو اسلام میں وہ نقص نظر آتا ہے جو اس میں موجود ہی نہیں۔ دوسری جانب انہیں مغرب کے جمہوری نظام میں وہ ’’خوبی‘‘ دکھائی دے رہی ہے جس کا وجود ہی نہیں۔ مغرب کا جمہوری نظام ایک حسین ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ کہیں یہ کارپوریٹ سیکٹر کا آلہ ہے، کہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کا کھلونا ہے، کہیں یہ سرمایہ داروں کا کھیل ہے۔ کہیں یہ Electables کا ڈراما ہے، کہیں یہ نسلی تعصب کا اشتہارا ہے، کہیں یہ نظام ہٹلر کو پیدا کرتا ہے، کہیں مودی کو سامنے لاتا ہے اور کہیں ڈونلڈ ٹرپ کو تخلیق کرتا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں مسلسل قوی ہورہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ آزادی اور جمہوریت کو معاشی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا مگر چین نے آزادی اور جمہوریت کے بغیر صرف 40 سال میں وہ معاشی ترقی کرکے دکھا دی جو یورپ نے ڈیڑھ سو سال میں کی تھی۔ مگر خورشید ندیم اعلان کے بغیر اس بات پر خوش ہیں کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیا شیطان کے حوالے کردی ہے۔ نہیں خورشید ندیم صاحب ایسا نہیں ہے۔ آج بھی اس دنیا کا نگراں خدا ہی ہے اور وہ اس کے لیے ایک خدائی منصوبہ بھی وضع کیے ہوئے ہے۔