جنوبی ایشیا کا امن خواب وسراب؟

491

وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کو آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں نریندر مودی کو پیغام دیا ہے کہ اگر وہ آزاد کشمیر پر جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے تو پاکستان اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا اور خطے میں جنگ کی ذمے داری عالمی برادری پر ہوگی۔ جس روز عمران خان نے بھارت اور کشمیریوں کو واضح پیغام دیا عین اسی روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی یہ بات واضح کی کشمیر پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ خطہ اس وقت ایک تاریخی موڑ مڑ رہا ہے۔ گزشتہ بہتر سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ نزع کشمیر ہے۔ یہ بہتر سال اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان کئی کھلی جنگوں، لاتعداد پراکسی جنگوں، سفارتی رزم آرائیوں، مذاکرات کی بزم آرائیوں، ٹوٹتے بنتے معاہدات عہدناموں سے عبارت رہے۔ اختلاف کا پرنالہ جہاں روز اول کو تھا آج بہتر سال بعد بھی وہیں ہے۔ یہ بہتر سال دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی امید پراعتماد سازی کے اقدامات، ثقافتی میلے ٹھیلوں اور عوامی رابطوں میں گزر گئے مگر پورے سفر کا نتیجہ صفر ہی رہا۔ یہاں تک کہ نریندر مودی نے کشمیر کی الگ شناخت پر آخری وار کرکے تنازعے کی موہوم امید بھی ختم کر دی۔
تنازع صرف دو صورتوں میں ختم ہو سکتا تھا۔ اول یہ کہ پاکستان بھارت کے اس اقدام کو خاموشی اور رسمی احتجاج تک محدود رہتے ہوئے قبول کر لیتا۔ دوم یہ کہ کشمیری عوام اس فیصلے کو مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے۔ کشمیریوں کی طرف سے اس فیصلے کو قبول کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوںکہ انہیں حالات وواقعات اور اپنی جواں سال نسلوں کے سرکٹوا کر اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں۔ خود پاکستان نے بطور ریاست بھارت کی اس یک طرفہ کارروائی کی مذمت ہی نہیں مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیا۔ پاکستان نے کشمیریوں کی وکالت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت ہر فورم سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا۔ اسی کی دہائی میں یہ سہولت فلسطینیوں سے بہت مہارت اور مکاری سے چھین لی گئی تھی۔ اس وقت تک اردن، مصر اور شام ان کی بین الاقوامی سطح پر وکالت کررہے تھے مگر بہت مہارت سے فلسطینی عوام کو اپنا مقدمہ خود لڑنے کا جھانسا دیا گیا۔ یاسر عرفات اور پی ایل او نے سمجھا کہ اس اجازت کے ذریعے ان کا بین الاقوامی اسٹیٹس تسلیم کیا جا رہا ہے مگر حقیقت میں یہ فلسطینی عوام کو تین مضبوط ملکوں کی وکالت سے محروم کرتے ہوئے تنہا کرنے کی چال تھی۔ مصر کیمپ ڈیوڈ کے ذریعے الگ ہو گیا باقی ممالک بھی رفتہ رفتہ پی ایل او اور یاسر عرفات کی صلاحیتوں کا نظارہ دیکھنے کے لیے معاملے سے الگ ہوئے اور یوں یاسر عرفات اسرائیل جیسی منظم اور خوں خوار اور باوسیلہ طاقت کا تنہا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان کی مزاحمت اور سرزمین کو کیک کی طرح ٹکڑوں میں کاٹ کر ہضم کرلیاس گیا۔ اب فلسطینیوں کے ہاتھ میں صرف اپنا وکالت نامہ ہے، سر پر اسرائیل کے جبر کا کوڑا ہے اور دنیا کی بے حسی اور بے بسی ہے۔ دو ریاستوں کی بات قصہ ٔ پارینہ بن گئی حد تو یہ کہ اپنے آبا کی سرزمین پر بھی فلسطینی تیسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔
آج کشمیریوں کو جو فریب دیا جارہا ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان اس معاملے سے الگ ہو کر کشمیریوں کو خود سفارتی محاذ پر اپنا مقدمہ لڑنے کا موقع ملے۔ کہنے کو تو یہ ایک خوشنما تصور ہے مگر اس کے پیچھے تجربے اور تاریخ کے کئی سبق ہیں جن میں فلسطین کا مسئلہ اہم ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اس لیے بھی کشمیر کے تناظر میں سیکھنے اور سمجھنے کی ایک بنیاد ہے کیوںکہ بھارت کشمیر میں فلسطین ماڈل ہی کو اپنائے ہوئے ہے۔ اس لیے جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت کو تسلیم کرکے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دینا چاہیے وہ ایک غلطی کر رہے ہیں۔ اس دور کی پی ایل او بھی ایک جلاوطن حکومت سے کم نہیں تھی بلکہ آزادکشمیر حکومت سے اس کی اتھارٹی، تعارف اور اثر رسوخ ہزار گنا زیادہ تھا۔ کشمیریوں کو ساتھ لے کر پالیسی سازی میں شریک کرکے اس مقدمے کو لڑا تو جا سکتا ہے مگر کشمیریوں کو بھارت جیسے باوسیلہ اور مکار ملک کے مقابلے میں تنہا آگے کرنا کامیاب حکمت عملی نہیں ہو سکتی۔ اس سے انداز ہ ہورہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی لڑائی ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ کشمیر بدستور آنے والے زمانوں میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان وجہ نزع بنا رہے گا۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کی بات محض ایک خوب وخیال ہو کر رہ گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا تصور بھی ہولناک ہے۔ بہتر سال کی کشمکش کسی منطقی اور خوش گوار انجام پر منتج ہونے کے بجائے اس سے کہیں زیادہ خوفناک دور میں داخل ہو رہی ہے۔ جوں جوں بھارت کشمیر میں اپنا ایجنڈا نافذ کرے گا اسی رفتار سے پاکستان پر عملی اقدام کا دبائو رائے عامہ کی طرف سے بڑھے گا۔ جنگ کی باتیں بہادری اور امن اور سیاسی اور سفارتی جدوجہد کی بات کمزوری بلکہ اس سے بڑھ کر غداری قرار پائے گی۔ اس مقبول لہر پر سوار نہ ہونے کا انجام وہی ہوگا جو خلیج کی پہلی جنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف کا ہوا تھا۔ پاکستان کی رائے عامہ میں صدام حسین کا راج تھا اور حکومت تنہائی میں کھڑی اس طوفان پر کاغذ کی نائو کی طرح تیر رہی تھی۔
پاکستان عملی طور پر جنگ سے جس حد تک بچنا چاہے مگر وادی میں ذرائع ابلاغ سے پابندیاں اُٹھتے ہی ردعمل کی زورآور لہریں چلنا شروع ہوں گی۔ یہ بات بھارت کو معلوم ہے اسی لیے وہ کشمیری عوام کو بدترین محاصرے کا شکار کیے ہوئے ہے۔ را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے ایک اہم انٹرویو میں یہی بات کچھ یوں تسلیم کی ہے کہ ’’بھارتی حکومت کے اس فیصلے سے آتنک واد (دہشت گردی) بڑھے گا کم نہیں ہوگا۔ کہاں بڑھے وادی میں‘ جموں میں‘ بھارت میں کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر اس کا کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی کوئی ری ایکشن ہوگا‘‘۔ اے ایس دولت کی اس بات سے برصغیر کے مستقبل کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی حالات کسی بھی مرحلے پر کھلی جنگ میں بھی ڈھل سکتے ہیں۔ کھلی جنگ کی نوبت نہیں بھی آتی تو پاکستان او ربھارت نوے کی دہائی میں واپس لوٹ چکے ہیں جہاں امن محض ایک خواب اور سراب سے زیادہ کچھ اور نہیں تھا۔