روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

493

۶۔ کارکنوں کے لیے تربیت گاہیں اہتمام کے ساتھ برابر قائم کی جاتی رہیں‘ اور ان کے اختتام پر کارکنان کے لیے قرآن و حدیث اور دینی لٹریچر کے مطالعے کا اہتمام کیا جائے۔
(vi)۔ قرارداد برائے آئین سازی
جماعت اسلامی کے ارکان کے اس اجتماع عام نے اس بات پر سخت تشویش ظاہر کی کہ ملکی دستور کو بنے ہوئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے‘ لیکن حکومت نے اس کے رہنما اصول اور اسلامی دفعات کے تقاضے پورے کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصہ سوم میں دفعہ ۲۳ کے مطابق‘ رہنما اصولوں میں ریاست کے فرائض میں سے چند نمایاں فرائض یہ دیے گئے ہیں:
۱۔ مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی‘ قرآن و سنت کے مطابق بسر کرنے کے قابل بنانا اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچانا۔
۲۔ قرآن کی تعلیم کو لازمی قراردینا‘ زکوٰۃ‘ اوقاف اور مساجد کا مناسب انتظام کرنا۔
۳۔ اسلامی معیار اخلاق کی پیروی کو فروغ دینا‘ قحبہ گری‘ قمار بازی‘ شراب نوشی اور سود کا انسداد کرنا۔
۴۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے مابین فرق کو بڑی حد تک کم کرنا۔
۵۔ مستحق لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات (غذا‘ لباس‘ گھر‘ تعلیم اور طبی سہولتیں) فراہم کرنا۔
۶۔ ملک کے باشندوں کو ملکی دفاع میں حصہ لینے کے قابل بنانا۔
گزشتہ ایک برس میں ان فرائض میں سے کسی ایک کی طرف بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا‘ بلکہ اس کے برعکس اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔
دستور کی دفعہ ۱۹۷ میں علوم اسلامیہ کی تحقیقات اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک ادارہ قائم کرنا لازم کیا گیا تھا۔ مگر اس سلسلے میں بھی کوئی عملی قدم اٹھانا تو درکنار کوئی منصوبہ بندی تک نہیں کی گئی ہے۔
دستور کی دفعہ ۱۹۸ میں ملک کے سابق قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور آئندہ کی قانون سازی کو قرآن وسنت کی ہدایات کا پابند بنانے کا فیصلہ ایک کمیشن کی تشکیل کے ذریعے تجویز کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی تشکیل دستور کی منظوری کے بعد ایک سال کے اندر کردینی چاہیے تھی‘ لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ دستور کی دفعہ ۱۹۸ ہی وہ دفعہ ہے جس پر ریاست کی اسلامی نوعیت کے عملاً بروئے کار آنے کا دارومدار ہے‘ جس کا سارا انحصار اس کمیشن کی صحیح یا غلط تشکیل پر ہے۔ اگر اس کمیشن میں ایسے لوگ جان بوجھ کر شامل کیے گئے‘ جو مذہبی اختلافات کا تماشا دکھاکر ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا خواب پریشان کرسکیں تو یہ اس بات کا صریحاً ثبوت ہوگا کہ دستور کی اس دفعہ پر نیک نیتی سے عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے۔ اس صورت میں یہ ضروری ہوجائے گا کہ پاکستان میں مسلمانوں کی دینی جماعتیں باہمی مشاورت اور تعاون سے خود ایک ایسی مجلس قائم کریں‘ جو موجودہ قوانین میں اسلامی نقطہ نظر سے ضروری اصلاحات تجویز کرے۔ آئندہ کی قانون سازی کے لیے اسلامی احکام کا ایک مستند مجموعہ مرتب کردے۔ کمیشن کے ذریعے جو اہل علم‘ دیانت دار‘ اور نیک نیت علمائے کرام پر مشتمل ہو‘ اس کے نفاذکا کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یہ اجتماع اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس سلسلہ میں دینی جماعتوں سے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
مغربی پاکستان میں صدر راج کا نفاذ
۲۱؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو صدر اسکندر مرزا نے مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کو معطل کرکے کابینہ کو توڑ دیا۔ اس انتہائی اقدام کا سبب یہ تھا کہ ری پبلکن پارٹی صرف چھ ماہ کے اندر اسمبلی میں اپنی اکثریت کھوچکی تھی۔ ۲۹؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو مغربی پاکستان میں صدر راج نافذ کردیا گیا۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان بھی بحران کا شکار تھا۔ حسین سہروردی کی قیادت میں عوامی لیگ علیحدگی کے رجحانات پروان چڑھارہی تھی۔ ۳ ؍اپریل ۱۹۵۷ء کو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس میں مشرقی پاکستان کی خود مختاری کی قرارداد پیش کردی گئی۔
مخلوط طریقہ انتخابات پر جماعت اسلامی کا ردِ عمل
۲۲؍اپریل ۱۹۵۷ء کو قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان میں بھی مخلوط طریق انتخاب رائج کرنے کا بل پیش کیا گیا‘ جس کی وجہ سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے ایک عظیم الشان جلوس نکالا اور ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ ملک بھر میں مخلوط طریقہ انتخاب کے بل کی مذمت میں قراردادیں منظور کرکے حکومت کو بھیجی گئیں۔ مگر اس احتجاج کے باوجود ۲۴؍اپریل کو قومی اسمبلی نے مخلوط انتخابات کا بل منظور کرلیا۔
(جاری ہے)