کوئٹہ ،مسجد میں دھماکا افغان طالبان سربراہ ہبۃ اللہ کے بھائی سمیت 5 افراد شہید

857
کوئٹہ:مسجد میں دھماکے کے بعد سیکورٹی اہلکار جائے وقوع پرشواہد اکٹھے کررہے ہیں،چھوٹی تصویر میں زخمی کو اسپتال لے جایا جارہا ہے
کوئٹہ:مسجد میں دھماکے کے بعد سیکورٹی اہلکار جائے وقوع پرشواہد اکٹھے کررہے ہیں،چھوٹی تصویر میں زخمی کو اسپتال لے جایا جارہا ہے

کوئٹہ /اسلام آباد(نمائندہ جسارت+اے پی پی) بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مسجد میں بم دھماکے کے نتیجے میں افغان طالبان کے سربراہ ہبتہ اللہ اخونزادہ کے چھوٹے بھائی سمیت5 افراد شہید جبکہ23 افراد زخمی ہوگئے، تاہم مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والے سبھی افراد مقامی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور کچلاک کے علاقے کلی قاسم خان میںواقع ایک مسجد میں دھماکا ہوا۔ کچلاک پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ شفقت جنجوعہ نے بتایا کہ دھماکا جمعہ کی نماز سے آدھا گھنٹے قبل 2 بجکر 40منٹ پر اس وقت ہوا جب امام مسجد خطاب کررہے تھے ۔ مسجد میں نمازیوںکی بڑی تعداد موجود تھی ۔انہوں نے بتایا کہ دھماکا مسجد کے منبر میں نصب کیے گئے بم کے ذریعے کیا گیا جس سے مسجد کا منبر کے قریب والا حصہ تباہ ہوگیا جبکہ دھماکے کی شدت سے مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ کے دروازے اور کھڑکیاں اکھڑ گئیں اور شیشے ٹوٹ گئے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے میں 4 افراد جاں بحق اور 23زخمی ہوئے جن میں سے 4 لاشوں اور 22 زخمیوں کو سول اسپتال اورایک زخمی کو بولان میڈیکل اسپتال پہنچایا گیا۔ سول اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق دھماکے کے فوری بعد سول اسپتال کے شعبہ حادثات اور ٹراما سینٹر میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ زخمیوں کو فوری طبی امداد دی گئی اور انہیں ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے 22 زخمیوں کو سول اسپتال لایا گیا جن میں سے 7کی حالت تشویشناک ہے۔ ترجمان کے مطابق دھماکے میں جاں بحق افراد کی شناخت حافظ احمد اللہ ولد مولوی محمد خا ن نورزئی، رحیم گل ولد محمد علی نورزئی، حاجی محمد سرور ولد فضل محمدبادیزئی اورمحمد خان ولد حبیب اللہ کے نام سے ہوئی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور غیر ملکی میڈیا رپوٹس کے مطابق دھماکے میں مرنے والے مسجد کے خطیب حافظ احمداللہ افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبتہ اللہ اخونزادہ کے بھائی ہیں جبکہ دھماکے میں ملا ہبتہ اللہ کا ایک بیٹا بھی زخمی ہوا ہے۔تاہم ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد اور مدرسہ ایک بلوچ معزز عالم الحاج محمد حسنی کی ملکیت تھے وہی اس مدرسے کے مہتمم بھی تھے وہ خود ان دنوں حج کرنے گئے ہیں اس لیے ان کے بیٹے مدرسے اور مسجد کے معاملات کو دیکھ رہے تھے۔ دھماکے میں مرنے والوں کی شناخت سے متعلق ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ مرنے والے سبھی افراد مقامی ہیں ان کی لاشیں وصول کرنے والے بھی مقامی لوگ ہی آئے تھے۔ جبکہ زخمیوں کی شناخت عزت اللہ ولد حاجی گل محمد، حاجی مراد ولد دولت خان، محمد قسیم ولد حاجی حیدر، قدرت اللہ ولد گل محمد، حکمت ولد گل محمد، حاجی ندا ولد شن گل، وحید اللہ ولد احمد اللہ، حاجی اکبر ولد عبدالرحمان، عبدالجبار ولد محمد گل، عبدالحکیم ولد محمد خان، آغا محمد ولد عبدالکریم، صدیق ولد عبدالرزاق، عبدالرحمان ولد عبداللہ، عزت اللہ ولد عبداللہ، حیات اللہ ولد عبدالباقی، دھیان ولد سفر خان، رحٰم الدین ولد عبدالکریم، سعدالدین ولد محمد سعید، حاجی غلام سرور ولد محمد صڈیق، رحمت اللہ ولد عبداللہ جان، عنایت اللہ ولد احمد خان اور محمد عیسیٰ کے نام سے ہوئی ہے۔ دھماکے کے فوری بعد پولیس ، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس ، اسپیشل برانچ، کرائم برانچ، سی ٹی ڈی اور سیکورٹی اداروں کے تفتیشی ٹیموں نے بھی موقع پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کیے۔ایک عینی شاہد حیات اللہ نے بتایاکہ وہ دھماکے کے وقت مسجد سے ملحقہ مدرسے کی نچلی منزل میں سورہا تھا اچانک زوردار دھماکا ہوا اورکوئی چیز آکر انہیں لگی ۔ہر طرف دھواں تھا ہم نے باہر جاکر دیکھا تو مسجد میں بڑی تعداد میں زخمی پڑے ہوئے تھے ۔مدرسے میں پڑھنے والے میرے 2 چچا زاد بھائی بھی زخمی ہوئے۔ ایک اور عینی شاہد محمد الیس نے بتایا کہ وہ مین گیٹ سے داخل ہورہے تھے تب زوردار دھماکا ہوا۔ دھماکے کی آواز سے میرے کان بند ہوگئے ۔لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ہم بھی بھاگ گئے اور چار پانچ منٹ بعد آکر زخمیوں کو اٹھاکر نجی گاڑیوں میں ڈالا اور سول اسپتال تک پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے وقت مسجد میں پولیس موجود نہیں تھی ۔صوبائی مشیر برائے ایکسائز و ٹیکسیشن ملک نعیم بازئی اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا۔ ڈی آئی جی پولیس عبدالرزاق چیمہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ دھماکے میں 4افراد کی موت ہوئی۔ 23افراد زخمی ہوئے جن میں سے 4 کی حالت تشویشناک ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ دھماکا مسجد کے منبر میں ہوا جہاں سے ہمیں ٹائم ڈیوائس بم کے شواہد ملے ہیں۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ کے مطابق بم 2 سے 3 کلو گرام وزنی تھا ۔ڈی آئی جی پولیس کے مطابق باقی تحقیقات بعد میں ہوگی کہ دھماکے کا ہدف کون تھا اور اس میں کون لوگ ملوث ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مسجد کی حفاظت کا کام پولیس اور مسجد کی انتظامیہ ملکر انجام دیتی تھی مسجد کے انتظامیہ کے بڑے تربیت یافتہ رضاکار تھے ہمارا بھی ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور 2 پولیس سپاہی وہاں موجود تھے ہم ایک انڈرسٹینڈنگ کے تحت ملکر کام کرتے تھے ۔واضح رہے کہ کوئٹہ میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہ چوتھا بم دھماکا ہے اس سے قبل23جولائی کو مشرقی بائی پاس،30 جولائی کو میزان چوک، 6اگست کو مشن چوک پر بم دھماکے ہوئے جن میں 10افراد جاں بحق اور70سے زاید زخمی ہوئے ۔ ان میں سے 2 دھماکوں کی ذمے داری داعش اور ایک کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ اس سے قبل کوئٹہ میں مئی2019ء میں پشتون آباد کی رحمانیہ مسجد میں اس نوعیت کا دھماکا ہوا تھا جس میں مسجد کے منبر کے نیچے ایک بیٹری میں نصب کیے گئے بم دھماکے کے نتیجے میں امام مسجد سمیت 4افراد جاں بحق اور27زخمی ہوئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں بم دھماکے نوعیت اور ہدف کے لحاظ سے مماثلت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے انہوں نے زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔