سلیم احمد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ظہور اور اپنے انتقال سے ذرا پہلے 1983ء میں دو شعر کہے تھے۔
جیسے یہ شہر کل نہیں ہوگا
جانے کیا وہم ہوگیا ہے مجھے
٭٭
یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے
بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ظہور کے بعد اہل نظر نے کراچی میں ان دونوں شعروں کو حقیقت بنتے دیکھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ظہور سے پہلے کراچی ایک نظریاتی شہر تھا۔ اس کی ایک تہذیب تھی۔ اس کی ایک تاریخ تھی۔ اس کے سر پر علم، فہم اور تخلیق کا تاج رکھا ہوا تھا۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کراچی کو اس کی ہر بنیاد سے کاٹ دیا اور کراچی کو اس کا غیر بنا کر کھڑا کردیا۔ سلیم احمد کو ’’وہم‘‘ تھا کہ یہ شہر کل نہیں ہوگا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے سلیم احمد کے وہم کو حقیقت بنادیا۔ جہاں تک سلیم احمد کے دوسرے شعر کا تعلق ہے تو ایم کیو ایم کے رہنما اور اس کے کارکنوں کی بڑی تعداد ذہن سے خالی اور نمو سے عاری لوگوں اور دست و پا و سر سے محروم بلائوں کے سوا کیا تھی اور کیا ہیں؟ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم خود پیدا نہیں ہوئی تھی۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ نے پیدا کیا اور اسٹیبلشمنٹ ہی نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ کا ’’مثالی پاکستانی‘‘ وہ شخص ہے جو اندھا بھی ہو، بہرا بھی اور گونگا بھی۔ ذہنی معذوری اسٹیبلشمنٹ کے مثالی پاکستانی کی ’’اضافی خوبی‘‘ ہے۔ کوئی شخص، اندھا، بہرا، اور گونگا ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی معذور بھی ہو تو وہ اسٹیبلشمنٹ کا ’’سپر پاکستانی‘‘ ہے۔ مگر اتفاق سے کراچی نظریاتی بھی تھا، اندھا بہرا، گونگا اور ذہنی معذور بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی قائد اعظم کا شہر رہا، لیاقت علی خان کا شہر رہا، مادر ملت فاطمہ جناح کا شہر رہا، جماعت اسلامی کا شہر رہا، دیگر مذہبی جماعتوں کا شہر رہا۔ مگر اہل کراچی نے جنرل ایوب کی آمریت کی بھی مزاحمت کی، بھٹو آمریت کو بھی للکارا، ضیا آمریت کو بھی آنکھیں دکھائیں، یہاں تک کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی آمریت کی بھی صرف کراچی ہی میں مزاحمت ہوئی۔ اصول اور اخلاق سے محروم طاقت کی مزاحمت تاریخ میں ہمیشہ ہی شریفوں اور بہادروں کا شیوا رہا ہے۔ کراچی کی اس مزاحمتی روح نے کراچی کے لیے وہ تنہائی تخلیق کی ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔
اس تنہائی اور اکیلے پن کو بیان کرنے کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کا ہر شہر کسی نہ کسی کا شہر ہے، لاہور پنجابیوں کا شہر ہے، کوئٹہ بلوچوں کا شہر ہے، پشاور پٹھانوں کا شہر ہے، لاڑکانہ سندھیوں کا شہر ہے، پنڈی فوجیوں کا شہر ہے مگر کراچی کسی کا شہر نہیں۔ کراچی میں 20 لاکھ پنجابی رہتے ہیں مگر پنجابی کراچی کو OWN نہیں کرتے، کراچی میں 20 لاکھ پٹھان آباد ہیں مگر پٹھان کراچی کو اپنا شہر نہیں سمجھتے، کراچی میں دو تین لاکھ سندھی آباد ہیں مگر سندھی کراچی کو ’’اپنا‘‘ نہیں کہتے۔ کراچی ملک کو 60 فی صد سے زیادہ مالی وسائل مہیا کرتا ہے مگر کراچی کے مالی وسائل سے ملک کا دفاع کرنے والی اسٹیبلشمنٹ بھی کراچی کو گلے لگانے پر تیار نہیں ہے۔ کراچی میں مہاجروں کی اکثریت ہے مگر کراچی کے لوگوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو طاقت مہیا کرکے خود کو کراچی کی وراثت کے مرتبے سے گرالیا ہے۔ اہل کراچی 1947ء سے 1985ء تک کبھی اندھے، بہرے، گونگے اور ذہنی طور پر معذور نہیں رہے مگر ایم کیو ایم نے اہل کراچی کو اندھا بھی بنایا، بہرا بھی بنایا، گونگا بھی بنایا اور انہیں ذہنی معذوری میں بھی تبدیل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر، ملک کو سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود قومی سطح پر کراچی کی کوئی آواز ہے نہ کوئی کراچی کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے۔
کراچی کی المناکی کے کئی پہلو ہیں۔ ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں گزشتہ 35 برسوں کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہم نے بھارت کے ساتھ چار چھوٹی بڑی جنگیں لڑی ہیں 95 ہزار افراد ان چار جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے۔ مگر قومی سطح پر کراچی کا حال وہی ہے جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا حال ہے۔ ہم نے امریکا کی جنگ کو گود لیا، پال پوس کر بڑا کیا اور اس جنگ میں 70 ہزار افراد کی قربانی دی۔ عمران خان کے بقول 150 ارب ڈالر کا نقصان سہا، مگر کوئی پاکستان کو رحم کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اس کے برعکس امریکا 19 سال سے ڈومور، ڈو مور کرتا رہا اور اب بھی کررہا ہے۔ کراچی نے 35 سال میں 92 ہزار لاشیں اُٹھائیں مگر قومی سطح پر اس کا شعور تو کیا احساس تک نہیں۔ کوئی اخبار یا کوئی ٹی وی چینل، کوئی صحافی، کوئی دانش ور، کوئی پاکستانی کراچی کے اس المیے کو بیان نہیں کرتا۔ کراچی ملک کو 60 فی صد سے زیادہ مالی وسائل مہیا کرتا ہے مگر کراچی میں ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ شہر کی نصف آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پورا شہر ٹرانسپورٹ کی ’’مناسب‘‘ سہولت سے بھی محروم ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، نواز لیگ، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کو کراچی سے ایسی نفرت ہے کہ وہ کراچی سے کچرا تک اٹھوانے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی کی بیشتر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں۔
کراچی میں دو دن کی معمول سے کچھ زیادہ بارش نے کراچی کے تمام ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو ننگا کردیا۔ دو دن کی بارش سے کراچی کے اکثر علاقے زیر آب آگئے، دو دن کی بارش 28 لوگوں کی زندگی کو نگل گئی، دو بچوں سمیت کئی افراد کے الیکٹرک کے تاروں سے ہلاک ہوگئے۔ بارش شروع ہوتے ہی آدھا شہر تاریکی میں ڈوبا رہا۔ ہم نارتھ ناظم آباد کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں 38 گھنٹے بعد بجلی کی فراہمی بحال ہوئی۔ ہم نے دو راتیں بجلی کے بغیر بسر کیں۔ اس تجربے سے ایسا محسوس ہوا جیسے پاکستان کے حکمران طبقے نے پورے کراچی کو Stone Age میں واپس بھیج دیا ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ اس صورتِ حال میں نہ کہیں ایم کیو ایم کی شہری حکومت موجود تھی، نہ کہیں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت موجود تھی اور نہ کہیں عمران خان کی وفاقی حکومت موجود تھی۔ سب کو معلوم تھا کہ کراچی میں اس بار زیادہ بارش کا امکان ہے مگر تمام بڑی سیاسی جماعتیں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہ کرسکیں۔ اب تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی فرما رہے ہیں کہ وہ صوبائی اور شہری حکومت کے ساتھ مل کر کراچی سے کچرا اٹھوائیں گے۔ بقول شاعر۔
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا
خیر اب کراچی سے کچرا اٹھے گا تو اہل کراچی یہ منظر بھی دیکھ لیں گے کہ ’’سیاسی کچرا‘‘ کس طرح ’’حقیقی کچرے‘‘ کو اُٹھاتا ہے۔
کراچی کے زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کی کمی نہیں۔ ان میں ایک اور شخص ملک ریاض کا اضافہ ہوگیا ہے۔ بحریہ ٹائون والا ملک ریاض ملک کے ممتاز جرائم یپشہ افراد میں سے ایک ہے۔ اس نے کراچی کی سیکڑوں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ کرکے بحریہ ٹائون کے عنوان سے بستیاں بسائی ہیں۔ ملک ریاض نے خود سپریم کورٹ میں اپنے ہولناک جرم کا اعتراف کیا ہے اور جرمانے کے طور پر 460 ارب روپے کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ جہاں تک کراچی کے زخموں پر نمک پاشی کا تعلق ہے تو ملک ریاض نے اس کی صورت یہ نکالی ہے کہ کراچی میں بارش ہوتی ہے تو کراچی ایک بڑا سا تالاب بلکہ ایک بڑا سا گٹر بن جاتا ہے۔ جب ایسا ہوجاتا ہے تو ملک ریاض اخبارات میں کراچی اور بحریہ ٹائون کی تصاویر ایک ساتھ شائع کرکے بتاتے ہیں کہ کراچی اور بحریہ ٹائون کی سہولتوں میں کتنا فرق ہے۔ اس بار انہوں نے جنگ، دنیا اور ایکسپریس میں نصف صفحے کا اشتہار شائع کرایا ہے۔ اشتہار کی سرخی یہ ہے۔
’’ہر موسم کا بحریہ ٹائون، بحریہ ٹائون میں بارش زحمت نہیں، رحمت ہے‘‘۔
اشتہار میں چھوٹی بڑی تصاویر موجود ہیں۔ تصاویر میں نہ کہیں بارش کا پانی جمع ہے، نہ کہیں گٹر ابل رہے ہیں، نہ کہیں سڑک ٹوٹی نظر آرہی ہے۔ اشتہار کی کاپی میں بتایا گیا ہے کہ بحریہ ٹائون میں نہ سڑکوں پر پانی کھڑا ہوتا ہے، نہ گٹر ابلتے ہیں، نہ بجلی جانے کا خوف ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحریہ ٹائون میں 12 ڈیمز میں بارش کا پانی ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ اس اشتہار کا مطلب یہ ہے کہ بحریہ ٹائون کراچی میں ہونے کے باوجود کراچی کے جیسا نہیں۔ یقینا بحریہ ٹائون ایسا ہی ہوگا جیسا کہ اشتہار میں بتایا اور دکھایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ریاض جیسا جرائم پیشہ شخص کراچی اور اس کے لوگوں کے لیے پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں سے بہتر ہے۔ تو کیا کراچی کا انتظام وفاق، صوبے، سٹی گورنمنٹ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے چھین کر ملک ریاض کے حوالے کردیا جائے؟ پاکستان کا حکمران طبقہ 71 سال میں تو کراچی کو بحریہ ٹائون نہیں بنا سکا کیا خبر ملک جیسے جرائم پیشہ شخص کے ہاتھوں میں جانے کے بعد کراچی آئندہ دس پندرہ سال میں بحریہ ٹائون جیسا بن جائے۔ غالب کا شعر یاد آگیا۔
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی