جنونی ہندوؤں کو کشمیری لڑکیوں سے شادی کا لائسنس مل گیا؟

772

مظفر نگر: بھارت کی انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر کو حاصل ’نیم خودمختاری‘ کو آئین میں تحفظ دینے والی شق 370 کے خاتمے کو چند گھنٹے بھی نہیں گزرے ہیں کہ جنونی ہندوؤں کے مکروہ عزائم سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ وادی چنار سمیت مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گزشتہ روز سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اترپردیش کے رکن اسمبلی پارٹی کارکنان کو آئین کی شق 370 کے خاتمے کی ’نوید‘ دیتے ہوئے کہا کہ اب ان گوری کشمیری لڑکیوں سے شادی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وکرم سائنی نامی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے کی جانے والی بات ویڈیو کیمرے کے ذریعے پورے بھارت میں گردش کررہی ہے۔ رکن پارلیمنٹ نے حکمراں جماعت کے کارکنان سے کہا کہ وہ اب مقبوضہ کشمیر جا کر پلاٹس خریدنے  اور شادیاں رچانے کے لیے آزاد ہیں کیونکہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

مکروہ عزائم کا حامل رکن پارلیمنٹ وکرم سائنی نے یہ بات مظفر نگر میں منعقدہ ایک تقریب میں کہی جو آئین کی شق 370 کے خاتمے کی خوشی میں منعقد کی گئی تھی۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ پرجوش اور کنوارے کارکنان کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کشمیر جا کر شادیاں کرنے کے لیے آزاد ہیں کیونکہ اب کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے وگرنہ اس سے قبل کافی قانونی پیچیدگیاں تھیں۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق پروگرام کے اختتام پر جب وکرم سے اس کی وائرل ہونے والی ویڈیو کی بابت دریافت کیا گیا تو اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے کہا کہ جو اس نے کہا ہے اس میں کیا غلط ہے؟ اس نے دعویٰ کیا کہ جو کچھ کہا ہے وہ سب سچ ہے۔

وکرم کا کہنا تھا کہ اسے وزارت دی جائے تو وہ ایسے تمام افراد پر بم مار دے اور تباہ کردے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی کے خیالات سے مقبوضہ وادی کشمیر سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں آباد مسلمانوں میں اس لیے بھی احساس عدم تحفظ پیدا ہونا فطری امر ہے کہ انہیں 1947 کے وہ دلخراش سانحات یاد ہیں کہ جب مسلمان بچیوں کو زبردستی اٹھا کر انتہا پسند جنونی لے جاتے تھے، زور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کراتے تھے اور ’نام نہاد‘ شادیاں کرلیتے تھے۔

پاکستان میں آج بھی ایسے متاثرہ خاندانوں کے زندہ افراد موجود ہیں کہ جنہیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی بابت یہ علم ہی نہیں ہے کہ وہ کس خاندان میں اور کس مذہب کے ساتھ جی رہی ہیں اور جی بھی رہی ہیں کہ نہیں؟۔

تقسیم کے بعد متعدد ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ جس میں مسلمان بچیوں نے اپنے باپ بھائی اور خاندان کی عزت بچانے محفوظ رکھنے کے لیے کسی کو یہ تک نہیں بتایا کہ وہ فسادات کے دوران زور زبردستی اغوا کی گئی تھیں۔