داخلی مسائل
مولانا مودودیؒ نے کہا: اس ملک میں ہر طبقہ میں اخلاق کی خرابی نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں‘ اس لیے مسائل کے حل کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔ حکمران طبقے کا کوئی اخلاق و کردار نہیں ہے۔ کرسیوں کے لیے اکھاڑ پچھاڑ قانون شکنی اوران کے جرائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بااختیار اور برسراقتدار لوگوں نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے۔ مفاد پرستی گھٹیا مال کی درآمد‘ رشوت ستانی اور اسمگلنگ عام ہیں۔ زمین داروں نے کاشت کاروں پر مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔ مذہبی پیشوا لوگوں کو لڑاکر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ نوجوان نسل کی حالت کالجوں اور اسکولوں میں ناگفتہ بہ ہے۔
پوری قوم بغیر نصب العین کے ہے۔ ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء تک اسلام کا نفاذ اس قوم کا نصب العین تھا‘ لیکن وہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو نہیں رہا۔ آج پاکستان میں فیصلہ کن طاقت عوام یا دستور یہ نہیں‘ بلکہ ملکہ برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی ہے۔ وہ اگر چاہے تو اس دستور کی منظوری نہ دے‘ جس کے لیے ساری قوم چیخ رہی ہے۔
مخلوط انتخاب کا نظریہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ملک دین کی بنیاد پر قائم ہوا تھا نہ کہ وطنیت کی بنیاد پر۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کس جغرافیائی رو سے ایک وطن ہیں؟ صرف مذہب کی بنیاد پر ہے۔ اگر اس کی بنیاد وطنیت یا قوم پرستی کی بنیاد پر قائم رکھنے کی کوشش کی گئی تو مشرقی پاکستان میں بنگالی نیشنلزم ترقی پائے گا اور آخرکار وہ مغربی پاکستان سے کٹ جائے گا۔ مخلوط انتخاب کی حمایت وہ شخص ہی کرسکتا ہے‘ جو پاکستان کے ان دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کردینا چاہتا ہے۔
چوتھا اور آخری روز (۲۳ ؍نومبر ۱۹۵۵ء)
آخری روز کا پہلا اجلاس ۹ تا ساڑھے ۱۲ بجے دوپہر ارکان جماعت کا خصوصی اجتماع تھا۔ جبکہ دوسرا اجلاس پروگرام کے مطابق ۳ تا سوا ۴ بجے سہ پہر ہوا‘ جس میں مولانا مودودیؒ کا ہدایات پر مشتمل اختتامی خطاب تھا۔ لیکن طبیعت کی خرابی اور ضعف کی وجہ سے ان کے بجائے مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے خطاب کیا (تقریر کا خلاصہ روداد جماعت اسلامی ہفتم‘ ص ۲۲۳۔ ۲۲۸) اجتماعی دعا کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کا تیسرا کل پاکستان اجتماع بخیر و خوبی ختم ہوا۔
اجتماع میں منظور کردہ قراردادیں
(۱) یہ اجتماع عام روسی بلاک کے بنیادی نظریات مقاصد‘ اور طریقہ کار سے قطعی اور کلی بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اس بلاک کے مدمقابل اینگلو امریکی بلاک جو دنیا کی چھوٹی بڑی سب قومو ں کو انصاف‘ آزادی اور جمہوریت کے نام پر روسی بلاک کے مقابلے میں اپنے ساتھ متحد کرنے کے لیے کوشاں ہے‘ اپنی پالیسی کے سبب مسلمانوں کے لیے کوئی قابل اعتماد دوست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوںکہ نمبر ایک تو یہ کہ اس بلاک کے دو بڑے لیڈر امریکا اور برطانیہ‘ ہزاروں سال سے آباد مسلمان فلسطینیوں کو طاقت کے بل بوتے پر اکھاڑ کر بے دخل کرنے‘ اور ان کی جگہ مختلف ملکوں میں آباد یہودیوں کو فلسطین میں لاکر آباد کرنے اور یہودیوں کی قومی ریاست زبردستی قائم کرنے کے ذمے دار ہیں۔ دوم یہ کہ اس بلاک کا تیسرا اہم رکن ملک فرانس‘ الجزائر‘ تیونس اور مراکش پر زبردستی قابض ہونے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کے خلاف انتہائی بہیمانہ مظالم کا ارتکاب کرنے کا مجرم ہے‘ اور ان ملکوں کے اصل مسلمان باشندوں کو ان کی املاک سے بے دخل کرکے‘ یورپ کے نو آباد کاروں کو لاکر بسارہا ہے۔
(۲) دوسری قرارداد میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا یہ اجتماع عام‘ مشرق وسطیٰ کی عظیم دینی اور سیاسی جماعت الاخوان المسلمون پر مصر کے فوجی آمروں کے‘ مسلسل سنگین مظالم پر غم و غصہ اور اضطراب کا اظہار کرتا ہے۔ اخوان رہنماؤں اور کارکنوں کو اس عظیم دور ابتلا میں ان کی استقامت اور پامردی پر دلی مبارکباد دیتے ہوئے ان کی کامیابی کے لیے دعا کرتا ہے۔ مصر میں یہ ظلم و ستم حکمران مسلمان ہی اپنے ان بے گناہ مسلمان بھائیوں پر روا کرکے اسرائیل کی نام نہاد ریاست کو بالواسطہ تقویت پہنچارہے ہیں‘ جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام زندگی کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں۔
(۳) جماعت اسلامی کا یہ اجتماع پاکستان کے خلاف افغانستان کی موجودہ حکومت کے افسوس ناک طرز عمل کو اسلامی اخوت کے مقدس اصولوں کے سخت منافی قرار دیتا ہے۔ اور حکومت پاکستان کے اس مصالحانہ طرز عمل کو سراہتا ہے‘ جو وہ افغانستان کے حکمرانوں کے پاکستان کے خلاف نازیبا اور افسوس ناک طرز عمل کے باوجود اپنے پڑوسی مسلمان ملک کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ یہ اجتماع افغانستان کے تمام صاحب عقل وفکر افراد سے اسلامی اخوت کے نام پر اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے غور کرکے اپنی حکومت کو ایک صحیح پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کریں‘ جو ایک مسلمان قوم کے شایان شان ہو اور عالم اسلام کی ایک مثالی برادری قائم ہوجائے۔
(۴) ہم مسلمانان پاکستان‘ اپنے ملک کی مجلس دستور ساز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلاتاخیر ’’قرارداد مقاصد‘‘ پر مشتمل اور سابق مجلس دستور ساز کے طے کردہ اسلامی اور جمہوری دفعات کا حامل اسلامی دستور بناکر نافذ کردے اور جس میں وہ ترمیمات بھی شامل ہوں‘ جو پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اپنے متفقہ ۲۲ نکات پر مشتمل بنیادی اصولوں کی رپورٹ پرجنوری ۱۹۵۳ء میں تجویز کی تھیں۔
سالانہ اجتماع کے موقع پر جماعت اسلامی کے اراکین متفقین کے ایک خاص اجلاس میں آئندہ تین سال کے لیے مجوزہ منصوبہ عمل پیش کیا گیا۔
(جاری ہے)