جنابِ وزیرِ اعظم سے چند گزارشات

564

چندگزارشات وزیرِ اعظم جناب عمران خان کے پیشِ خدمت ہیں: ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے حسنِ نیت سے اور نیک عزم کے ساتھ ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا اور وقتاً فوقتاً آپ اسے دُہراتے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کی نیت پر بدگمانی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن ہم نے پہلے بھی کہا تھا یہ بہت بڑا دعویٰ ہے، اس پر پورا اترنا آسان نہیں ہے اور موجودہ حالات میں عقلاً تو محال نہیں ہے، مگر عملاً دشوار ترین ہے۔ ریاستِ مدینہ سے ایک مسلمان کا ذہن اُس چالیس سالہ دور کی طرف جاتا ہے، جو سیدالمرسلین ؐ کی ہجرت سے لے کر رسول اللہ ؐ کے چوتھے خلیفۂ راشد امیرالمومنین سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی عظیم شہادت پر ختم ہوتا ہے، یعنی عہدِ رسالت مآب ؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مبارک دور، جس کی عظمت کے نقوش ہر مسلمان کے دل ودماغ پر ثبت ہیں۔ پس آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے خطابات میں یہ کہیں: ’’ہم اپنی بساط کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، ہماری نیت نیک ہے، عزائم پُختہ ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سُرخرو فرمائے اور کامیابی نصیب فرمائے‘‘۔
معروضی حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی اپنے دوست ممالک سے سود پر قرض لے کر نظامِ مملکت چلا رہے ہیں، اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں سے سود پر قرض لے رہے ہیں اور داخلی طور پر اپنے قومی مالیاتی اداروں سے بھی وقتا فوقتاً سود پر قرض لیتے ہیں اور قومی بچت کی مختلف اسکیمیں بھی ریاست کے داخلی سودی قرض ہیں، ہماری گزشتہ حکومتیں بھی یہی کرتی رہی ہیں، جبکہ فتحِ مکہ کے موقع پر رسول اللہ ؐ نے اعلان فرمایا تھا: ’’بے شک میں عہدِ جاہلیت کے سودی واجبات کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوں، صرف رأس المال یعنی اصل زَر ادا کرنا ہوگا اور سب سے پہلے میں (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں، یعنی آپ ؐ نے قطعی اعلان فرما دیا تھا کہ اب اسلامی ریاست میں سودی لین دین نہیں چلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ کیا ریاستِ مدینہ میں کوئی تصور کرسکتا ہے کہ قوم کی بیٹیاں چوک میں یہ پلے کارڈ لے کر کھڑی ہوں: ’’میرا جسم میری مرضی، ہاں! میں بدچلن، میں آوارہ‘‘، مگر آپ کے زیرِ اقتدار ریاستِ پاکستان میں ایسا ہوچکا ہے۔
دوسری اہم گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے خطابات میں جو اسلامی حوالے دیں، اُن کے بارے میں کسی مُستند صاحبِ علم یا کم از کم اپنے وزیر ِ مذہبی امور سے مشاورت کرلیا کریں، دینی مُقدّسات ایک حساس معاملہ ہے اور اس کے لیے الفاظ کا چُناؤ کرنے میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے، میر انیس اور میر تقی میر نے کہا تھا:
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیس! ٹھیس نہ لگ جائے، ان آبگینوں کو
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
دینی مُقدّسات سے رشتۂ عقیدت کے آبگینے تو حد درجہ نازک ہیں، یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ مسلمانوں کے لیے عقائد اور مُقدّساتِ دین کے معاملات جماعتی وفاداریوں سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی اس شعبے میں گزری ہے، لیکن ہم بھی ممکنہ حد تک حساس موضوعات پر بولنے یا لکھنے سے پہلے اصل مآخِذ کی طرف رجوع ضرور کرتے ہیں۔ ایک ہی مفہوم کے اظہار کے لیے الفاظ کے انتخاب کا بہت فرق ہوتا ہے، اردو زبان میں ایک اندازِ بیان یہ ہے کہ کوئی کہے: ’’تمہاری ماں کا خصم‘‘ اور دوسرا یہ: ’’آپ کے والدِ بزرگوار‘‘، ان دونوں میں معنوی فرق کوئی نہیں ہے، لیکن تاثیر کے اعتبار سے زمین وآسمان کا فرق ہے، پہلے کلمات سن کر انسان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، جبکہ دوسرے کلمات سن کر انسان کے دل میں قائل کے لیے احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، عربی شاعر نے کہا ہے: ’’نیزوں کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ بھر جاتے ہیں، لیکن زبان کے لگائے ہوئے زخم کبھی مُندمِل نہیں ہوتے‘‘۔
امیر المومنین سیدنا علیؓ اور ایک یہودی کے مابین مُقدمے کے حوالے سے آپ نے جو بات کہی، وہ معنوی اعتبار سے درست ہے، کیونکہ عدالت سے جس فریق کے خلاف فیصلہ آجائے، ہمارے عرف میں کہا جاسکتا ہے: وہ ہار گیا۔ لیکن اس کو اس انداز سے بیان کرنا چاہیے: امیر المومنین سیدنا علیؓ خلیفۃ المسلمین اور قاضی القضاۃ ہوتے ہوئے بھی ایک یہودی کے مقابل عدالت میں مُدعی کے طور پر پیش ہوئے اور حق پر ہونے کے باوجود چونکہ آپ کے پاس عدالت میں پیش کرنے کے لیے غیر جانبدار گواہ نہیں تھے، اس لیے قاضی نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا۔ آپ نے بطور گواہ اپنے صاحبزادے سیدنا حسنؓ اور اپنے غلام قنبر کو پیش کیا، قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیں ہے اور آپ نے اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول فرمایا۔ اس بے مثال عدل کا فریقِ مخالف یہودی پر گہرا اثر مرتب ہوا: وہ پلٹ کر آیا، عدالت میں اقرار جرم کیا اور کہا: یہ عدلِ نبوت کے مشابہ ہے کہ امیرالمومنین مجھے برابر کا درجہ دے کر قاضی کے سامنے پیش ہوئے، قاضی نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا اور انہوں نے اسے قبول کیا، چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا، سیدنا علیؓ نے وہ زرہ اور ایک گھوڑا اُسے ہبہ کیا اور پھر وہی نومسلم آپ کے ہمراہ خوارج کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا۔ سید المرسلین ؐ نے ایک موقع پر آپ سے فرمایا تھا: ’’اے علیؓ! اگر ایک شخص بھی تمہارے ہاتھ پر اسلام قبول کرلے، تو یہ نعمت تمہارے لیے سُرخ اونٹوں کے ریوڑ سے بہتر ہے، یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ کُتُبِ سیرت وتاریخ میں مرقوم ہے۔
غزوۂ بدر میں بھی جہاد سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا، غزوۂ بدر کو اللہ تعالیٰ نے الفرقان یعنی ایمان کی کسوٹی قرار دیا ہے، رسول اللہ ؐ نے اہلِ بدرکی بابت اللہ کی یہ بشارت دی تھی: ’’تم جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے‘‘ اور آپ ؐ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے اللہ! اگر آج تو انہیں ہلاک کردے گا، تو پھر زمین پر تیری عبادت کبھی نہ ہو گی‘‘، اس ارشادِ نبوی کا معنیٰ یہ ہے کہ قیامت تک ایمان کی نعمت سے سرشار ہونے والا ہر شخص بدری صحابہ کے زیرِ بارِ احسان ہے۔
غزوۂ اُحد میں عبداللہ بن جُبیر کی قیادت میںجبلِ عینین پر مورچہ بند صحابۂ کرام سے یقینا اجتہادی خطا ہوئی اور وہ سرورِ عالم ؐ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے، لیکن اُن کا یہ اقدام مال کے لالچ یا نافرمانی کے ارادے سے نہیں تھا بلکہ اُنہوں نے نیک نیتی سے یہ سمجھا کہ اب مسلمانوں کو یقینی فتح حاصل ہوگئی ہے اور اب یہاں مورچہ زن رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے اُن کے بارے میں بھی محتاط کلمات استعمال کرنے چاہئیں اور صرف یہ کہنا چاہیے: ’’غزوۂ اُحد کا سبق یہ ہے کہ فرمانِ رسول ؐ پر غیر مشروط طور پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اپنے اجتہاد یاحسنِ نیت سے بھی فرمانِ رسول کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اللہ کی عطاکردہ نعمتِ عقل کو منشائِ نبوت کو نظر انداز کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مالِ غنیمت جمع کرنا اس دور میں شِعار تھا، کوئی معیوب بات نہیں تھی، اسے لوٹ مار سے تعبیر کرنا بے ادبی ہے، کیونکہ رسول اللہ ؐ خود مجاہدین کے درمیان مالِ غنیمت کو تقسیم فرماتے تھے، البتہ کسی نامی گرامی کافر کے بارے میں کبھی آپ یہ اعلان فرماتے: ’’جو اسے قتل کرے گا، اس کا مال اسے ملے گا‘‘۔
اسی طرح آپ بڑے شوق سے احتساب کریں، بے لاگ احتساب کریں، لیکن اُس کے لیے ریاست کے آئینی اور قانونی ادارے موجود ہیں، اُنہیں آزادانہ ماحول میں اپنے فرائض انجام دینے دیں، اپنے فرائض کی انجام دہی میں اگر ان اداروں کو حکومتِ وقت کی مالی یا انتظامی مدد درکار ہو، تو وہ بھی فراہم کریں، لیکن یہ تاثر نہ دیں کہ احتساب کی ڈرائیونگ سیٹ پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور مُتعلقہ ادارہ آپ کی آشیر باد یا اشارۂ ابرو پر ہاتھ باندھے عمل پیراہے، عربی کا مقولہ ہے: ’’جس نے دوسروں کی عزت کی، درحقیقت اس نے اپنے لیے عزت کمائی‘‘۔ آپ ملک کے وزیرِ اعظم ہیں، اس وقت آپ پاکستان کا حوالہ ہیں، آپ اندازِ کلام اور تَخاطُب کا ایسا لب ولہجہ اختیار نہ کریں کہ کوئی رَدعمل میں آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے، اپنی رہنمائی کے لیے اس حدیثِ مبارک کو مَشعلِ راہ بنائیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کوئی شخص اپنے ماں باپ پر کیوں لعنت بھیجے گا (یعنی ایسا بدنصیب کون ہوگا)، آپ ؐ نے فرمایا: ایک شخص دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے، (بخاری)‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث میں لعنت کی جگہ گالی کا کلمہ آیا ہے۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ کسی کے قول وفعل پر جو ناپسندیدہ ردِ عمل آتا ہے، اُس کا ذمے دار وہ خود ہے، کیونکہ اس نے خوداس کا جواز فراہم کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے کے لیے کسی کو گالی دینا یا اہانت کرنا جائز ہوجائے گا، لیکن اپنی عزت کا تحفظ ہر شخص کی اپنی ذمے داری ہے۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’مومن کو روا نہیں کہ اپنے آپ کو ذلت سے دوچار کرے، (ترمذی)‘‘، یعنی ایسی ذلت جس کا سبب وہ خود بنا ہے۔ کاش کہ ہم اللہ کے پیارے رسول ؐ کی ان پاکیزہ تعلیمات سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں سے ہماری درخواست ہے کہ ایک دوسرے کی پالیسیوں، اقدامات اور اُن کے منفی نتائج پر ضرور تبصرہ کریں، عوام میں آگہی پیدا کریں، لیکن قوم کے اہلِ نظر کی آرزو یہی ہے کہ ہمارے رہنماؤں کو ذہنی اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، دنیا کے سامنے ہمارا کوئی مُثبت پہلو بھی آنا چاہیے۔ آج کل زبان یا قلم سے نکلاہوا ہر لفظ تاریخ کے ریکارڈ پر ثبت ہوجاتا ہے، نہ اُسے واپس لینا ممکن ہوتا ہے، نہ دور اَزکار تاویلات کسی کام آتی ہیں۔