ثالث کے لیے اسٹیج کی تیاری یا تنہا رہ جانے کا خوف؟

442

کیا بھارت کو افغانستان کی امن گاڑی سے اتار دیے جانے اور امریکی انخلا کے بعد تنہا رہ جانے کا خوف دامن گیر ہے؟ کیا بھارت کشیدگی کو بڑھا کر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ثالث کے لیے اسٹیج تیار کر رہا ہے؟ جبکہ ثالثی کے لیے کم ازکم دو طاقتور ملکوں امریکا اور چین کی قیادت کے دلوں میں ایک خواہش مچل رہی ہے بلکہ اس کی پیشکش بھی میز پر عرصہ دراز سے موجود ہے۔ یہ سوال اس وقت اُبھرے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اچانک اضافہ ہوگیا۔ بھارتی فوج نے مظفر آباد میں وادی نیلم اور لیپا میں بلا اشتعال فائرنگ کرکے درجنوں افراد کو شہید وزخمی کیا۔ سیکڑوں افراد پناہ کی تلاش میں محفوط علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ وادی نیلم میں سیاحت اپنے عروج پر ہے اور فائرنگ کے باعث مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کے ساتھ تصادم میں پاک فوج کے کئی جوان بھی شہید ہوئے۔ بالائی نیلم میں بھارتی فائرنگ سے کئی مکان نذر آتش بھی ہوئے۔ پاک فوج کے جوانوں نے نہ صرف بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا بلکہ وہ عوام کا حوصلہ بڑھانے اور ہنگامی امداد کے لیے مقامی آبادی کے ساتھ کھڑے بھی رہے۔
بھارت جس طرح سری نگر کی گلیوں میں عام کشمیری کے ہاتھوں زچ ہورہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اپنی خفت مٹانے کے لیے بھارت کوئی بھی خطرناک کھیل کھیل سکتا ہے۔ بھارتی فوج نے نوسہری ڈیم کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر بتایا جاتا ہے کہ گولے پانی میں گرنے سے نقصان نہیں ہوا۔ کبھی نکیال سیکٹر میں تو کبھی بالاکوٹ میں سرجیکل اسٹرائیکس کے ناکام ڈراموں کی عکس بندی کے بعد بھی بھارت اپنی خفت مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے بھارت کو مزید شرمندہ کردیا ہے۔ کلبھوشن یادیو کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے نے بھی بھارت کی مایوسیوں کو بڑھا دیا ہے۔ یہ تمام باتیں بھارت کی فرسٹریشن بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں اور وہ کسی نئی مہم جوئی کے موڈ میں ہے۔ چند دن قبل ہی بھارت نے مزید دس ہزار تازہ دم فوجی وادی میں اتارے ہیں۔ ساڑھے سات لاکھ فوج کی موجودگی میں مزید فوج منگوانے کے پیچھے بھارت کے جنگی مقاصد ہیں۔ برھان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ ہفتے بھر میں احتجاج کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور حالات معمول پر آئیں گے مگر یہ خیال خام ثابت ہوا اور کشمیر آج تین سال بعد بھی اسی طرح آگ کا دہکتا الائو بنا ہوا ہے۔ کشمیر کے حالات کی گونج صرف پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں ہی سنائی نہیں دے رہی بلکہ بی بی سی، سی این این، الجزیرہ جیسے عالمی ادارے بھی مسلسل سری نگر کے حالات کو رپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکا اور اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل تک میں کشمیر کے حالات پر آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ بھارت اس صورت حال سے زچ ہوکر رہ گیا ہے۔
چند روز قبل وزیر ستان اور بلوچستان میں پاک فوج پر افغانستان کی جانب سے ہونے والے دو حملوں میں دس جوان اور افسر شہید ہوئے۔ ایک دن میں یہ فوجی جوانوں کے شہید ہونے کا غیر معمولی واقعہ ہے جس کی کسک اور شدت پاکستان کی فوج نے ہی نہیں سماج نے بھی محسوس کی ہے۔ شاید منصوبہ سازوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کو بطور ریاست اور بطور قوم تکلیف میں مبتلا کیا جائے۔ ان حملوں میں کون ملوث ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے مطابق یہ تعین کرنا ابھی باقی ہے اور اس حوالے سے نشاندہی کرنا قبل از وقت ہوگا۔ وفاقی وزیر داخلہ کے پاس شاید حملوں کی ٹھوس رپورٹس ابھی نہ پہنچی ہوں مگر یہ حقیقت بچہ بچہ جانتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف کون استعمال کرتا رہا ہے اور اس کا ’’شناختی کارڈ‘‘ زندہ حالت میں ابھی بھی پاکستان کی قید میں کل بھوشن یادیو کے نام سے موجود ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد افغانستان میں قیام امن کی ایک موہوم امید پیدا ہوگئی تھی اور خیال تھا کہ امریکا، پاکستان، افغان حکومت اور طالبان سمیت سب قوتیں اپنے ماضی سے دامن چھڑا کر ایک نیا باب شروع کرنے پر مائل ہوگئے ہیں۔ جس کا ثبوت امریکا، پاکستان اور طالبان کے بدلے ہوئے بیانات تھے۔ افغان حکومت وہ واحد فریق تھا جو بدلی ہوئی فضاء پر چیں بہ جبیں نظر آرہی تھی اور افغان حکومت پر بھارت کا اثر مسلمہ ہے۔ بھارت نے خود کو افغان تنازعے سے الگ کیے جانے کی کوششوں کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کیا۔ افغان حکومت نے افغانستان کے کرہ ارض سے مٹ جانے کی ٹرمپ کی بات پر احتجاج کرتے ہوئے امریکی حکومت سے وضاحت بھی مانگی تھی یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکا اور پاکستان سمیت بیرونی طاقتوں کا افغان عوام کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں۔ بیرونی قوتوں کو وہ افغان حکومت للکار رہی تھی جو خود کئی بیرونی قوتوں کے سہارے کھڑی ہے اور بیرونی قوتوں کے انخلا کے تصور کے ساتھ ہی جس پر عذاب جاں کنی طاری ہوجاتا ہے۔ امریکا بیرونی قوت ہوتے ہوئے افغان حکومت کا سرپرست اور بھارت بیرونی قوت ہوتے ہوئے اس کا معاون سرپرست ہے۔ انہیں شاید وہ بیرونی قوت نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک بیرونی قوت صر ف پاکستان ہی ہے۔
پاکستان نے امریکا کو باعزت انخلا دینے اور قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ہامی بھر لی تھی مگر کچھ قوتوں کو یہ گوارا نہیں۔ بھارت تو افغانستان کے امن میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتا کیوںکہ افغانستان میں امن سے پاکستان میں بھی امن وامان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ افغانستان میں مستقل بدامنی سے بھارت سمیت دوسری طاقتوں کو اپنا کھیل کھیلنے میں آسانی رہتی ہے۔ یہ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان میں حکومتوں اور ریاستوں کی سطح پر تعلقات قائم ہوں۔ اس لیے وہ دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ پاک فوج پر ایک دن میں ہونے والے حملے ایک گہری اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے مظہر ہیں۔ افغان حکومت کے اصرار پر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا نے خطے کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ خطے کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل نہ کرنے کی بات اگر افغان حکمرانوں کے آنسو پونجھنے کے لیے ہے تو اور بات اگر پالیسی تبدیل نہیں ہوتی تو پھر امن کیسے آسکتا ہے؟۔ ابھی تک کی امریکی پالیسی میں بھارت کو علاقے کا چودھری بنانا۔ علاقے کے باقی ملکوں کو اس کے پیچھے مودب انداز میں کھڑا کرنا اور چین کا راستہ ہر قیمت پر روکنا اور سی پیک کو ناکام کرنا تھا۔ جس کے لیے مختلف مقامات پر بغاتوں اور شورش کی سرپرستی کی جاتی رہی ہے۔ اس پالیسی نے ردعمل کو بھی جنم دے رکھا تھا اور یوں خطہ ایک نہ ختم ہونے والی آویزش کا شکار تھا۔ اس پالیسی نے عملی طور پر امریکا کو کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اس پالیسی میں تبدیلی کا امکان ہی ٹرمپ عمران ملاقات اور جنرل باجوہ کو پینٹا گون میں توپوں کی سلامی سے پیدا ہوگیا تھا۔ یہ پالیسی اگر نہیں بدلی تو پھر جنوبی ایشیا میں جاری خون خرابہ ختم ہونے کا امکان نہیں۔ بھارت جب تک اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا عمران خان ایک ہاتھ سے تالی بجانے کا کرشمہ نہیں دکھا سکتے۔ نریندر مودی ناراض ہو کر بیٹھے رہیں گے تو عمران خان اکیلے امن کی راہ پر کب تک سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ابھی تک بھارت اپنا رویہ بدلتا ہوا نظر نہیں آرہا۔