اسلام آباد (آن لائن) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے سیمنٹ فیکٹریوں پر 7 ارب روپے جرمانے کے خلاف حکم امتناع کے معاملے پر غور کرے گی۔ سی سی پی نے 2009ء میں پنجاب کی 20 سیمنٹ فیکٹریوں پر کارٹل بنانے اور قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف 7 ارب روپے کا جرمانہ عاید کیا تھا۔ وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف سیمنٹ فیکٹریوں کی ایسوسی ایشن نے عدالت عالیہ لاہور میں مقدمہ قائم کردیا تھا اور سی سی پی کے اختیارات کو بھی چیلنج کردیا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج نے سیمنٹ فیکٹریوں کے حق میں حکم امتناع جاری کیا تھا جو 10 سال گزرنے کے باوجود بھی عدالت عالیہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ سیمنٹ فیکٹریوں کے مالکان نے 7 ارب جرمانہ ادا کرنے کی بجائے سی سی پی کے چیئرپرسن ارکان کی تعیناتی کو بھی چیلنج کردیا جس کے نتیجے میں متعدد افسران بھی اپنے عہدوں سے علیحدہ ہوگئے ۔ قائمہ کمیٹی خزانہ میں پیش کی گئی رپورٹ پر متعدد ارکان نے عدلیہ اور ججوں کے کردار پر بھی بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ متعدد ارکان نے یہ معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کرنے پر زور دیا ہے تاکہ سیمنٹ فیکٹریوں پر 7 ارب جرمانہ کے معاملہ کو 10 سال تک التواء میں رکھنے کا جائزہ بھی لیا جاسکے۔ سی سی پی نے پنجاب میں قائم بیس سیمنٹ ملوں کو 10 ارب 35کروڑ جبکہ سیمنٹ فیکٹریوں کی ایسوسی ایشن پر مجموعی 50 ملین روپے کا جرمانہ عاید کیا تھا۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سیمنٹ فیکٹریوں کے تمام ریکارڈ کا اہم فرم سے آڈٹ کرایا گیا تا جس میں متعدد انکشافات سامنے آتے ہیں آڈٹ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیمنٹ کی پیداوار میں معمولی اضافہ کے برعکس سیمنٹ کمپنیوں کے منافع میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ان حالات میں سی سی پی نے اس پورے سیکٹر کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیمنٹ بوری کی قیمت میں اضافہ کی وجہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں پانچ سو روپے فی ٹن اضافہ ہے جبکہ ایکسل لوڈ کی وجہ سے تیس روپے فی بوری اضافہ کا باعث بنا ہے۔