امریکی خلوت کے نئے شریک

438

 

 

پاک امریکا تعلقات ایک بار پھر بحال ہونے جا رہے ہیں۔ ’’امریکی قیادت پر واضح کردیا کہ امداد کے لیے نہیں آئے بلکہ تجارت چا ہتے ہیں ‘‘۔ ’’صدر ٹرمپ بھی جلد پا کستان آئیں گے۔ امریکا کے ساتھ احترام اور اعتماد پر مبنی مضبوط تعلقات اہم ہیں‘‘۔ ’’برابری کی بنیاد پر گفتگو ہوگی۔ ڈومور کو ذہن سے نکال دیں۔ پاک امریکا تعلقات معمول پر آگئے‘‘۔ امریکی کانگریس میں پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم کے حق میں ایک شاندار قرار داد پیش کی گئی ہے۔ چمن میں ہر طرف بہار ہی بہار ہے۔ اس مرتبہ کوچہ ٔ یار سے بے نَیلِ مرام واپسی نہیں ہوئی۔ خوبصورت جملوں، دلفریب عزائم اور امید کا ایک جہان ہمراہ ہے۔ اس سر خوشی میں کس کو یاد کہ محبت کی یہ برکھا پہلی بار نہیں برسی۔ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکا ہمارے بوسے لے رہا ہے اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہوگا کہ استعمال کے بعد ہم ایک بار پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیے جائیں۔ چاہتوں کے اس سفر میں متعدد بار ہماری سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ امریکا اس بلیک میلر کی طرح ہے جو پہلے پیار سے کام چلانا چاہتا ہے۔ پیار سے کام نہ نکلے تو دھمکیوں اور بدمعاشی سے کام لیتا ہے۔ اس پر بھی کام نہ ہو تو ڈالرز کی جھنکار سنائی جاتی ہے۔ اس مرتبہ امریکا تینوں طریقوں سے بروئے کار ہے۔ صدر ٹرمپ کی پیار کی باتوں، ڈالرز کی جھنکار کے وعدہ فردا میں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کس صفائی سے، کس ملفوف انداز میں ہمیں دھمکا گئے۔ ایک کروڑ لوگوں کی ہلاکت کی دھمکی صرف افغانستان کے لیے نہیں ہے۔ پاکستان افغانستان سے دور نہیں۔
صدر ٹرمپ کئی مواقع پر امریکا کے بارے میں مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں ’’امریکا دنیا کے لیے مذاق بن چکا ہے۔ ہمارا ملک تباہ ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی جذبہ نہیں بچا ہے۔ ہم ایک مقروض ملک ہیں۔ ہماری طاقت ختم ہوچکی۔ ہم مکمل طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔ ہم نہیں جانتے ہمارے ملک کا کیا ہوگا۔ ہر گزرتے دن کاروباری لحاظ سے ہماری فیکٹریاں کباڑ خانہ بن رہی ہیں۔ چور اچکے ڈاکوئوں کا راج ہے۔ اندرونی طور پر غربت نے تباہی مچار کھی ہے اور بیرونی جنگوں کی وجہ سے تبا ہی ہورہی ہے۔ ہمارا ملک بچا ہی نہیں۔ امریکا کے تمام خواب مرچکے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ کی ان باتوں میں صداقت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا ہاتھی ہے اور ہاتھی کے گرنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اس وقت جس دور میں ہم جی رہے ہیں امریکا دنیا کی واحد سپر طاقت ہے۔ اس کی اقتصادی اور فوجی طاقت اور سازشوں کے سامنے دنیا کے کسی ملک کا ٹھیرنا محال ہے۔ دنیا کا ہر ملک اس سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ امریکا سے تعلقات کی بحالی عمران خان کی شخصیت کا کرشمہ ہے، اعلیٰ سفارت کاری وجہ ہے یا پھر صدر ٹرمپ کی ضرورت شدید ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو، تعلقات کی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ ماضی میں رہی ہے۔ ہمارے باب میں امریکا کا بے گانگی اور دھمکیوں کا رویہ کم بہت ہی کم ہو جائے گا، علاقائی اور عالمی سطح پر ہماری تنہائی کم اور اثر رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ عالمی اداروں کی طرف سے ہمیں قرضہ بھی با آسانی ملنے لگے گا، ہمیں عالمی اداروں اور امریکا کی پابندیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا ہوگا، ڈالرز کی ترسیل بھی شروع ہو سکتی ہے لیکن یہ سب مشروط ہوگا۔ ہمیں خالصتاً امریکا کے مفادات کے تابع ہو کر رہنا ہوگا۔ امریکا کے مفادات کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ اگر کہیں ہمارے مفاد کی بات ہوگی تو اس کے لیے ہمیں امریکا سے سخت بارگیننگ کرنا ہوگی۔ اور پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ امریکا کا مفاد ختم ہوتے ہی ہماری پھر وہی حیثیت ہوگی جو جسم سے کٹے ہوئے عضو کی ہوتی ہے۔ امریکا سے قربت اور محبت کا مطلب ہے جو امریکا کہتا ہے وہ ہم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ مرد اور عورت کے تعلقات کی طرح ہیں۔ مرد نے جس وقت عورت کو قائل کرلیا وہ اس سے محبت کرتا ہے، اسے تحفظ دے گا اسی لمحے وہ اس کی بن جاتی ہے۔
ایک صدر ٹرمپ ہی نہیں کسی بھی امریکی صدر کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ اپنے ہی فوجیوں کو مروانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ 1994 کی کانگریس رپورٹ کے مطابق 1940میں دو خطرناک گیسوں مسٹرڈ گیس اور بلسٹرگیس کے تجربے کے لیے ساٹھ ہزار فوجیوں کو انسانی فاسد مادے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان میں سے اکثریت کو ان تجربات کی حقیقت کے بارے میں بتایا گیا اور نہ ہی بعد میں کسی قسم کی طبی امداد دی گئی۔ 1990 کی خلیجی جنگ سے واپس آنے والے ہزاروں سپاہی اپنی ہی لگائی ہوئی غیر معمولی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ انتہائی نقصان دہ کیمیائی حیاتیاتی عوامل ان بیماریوں کی وجہ تھے۔ پینٹا گون ابتدا میں اس سے انکار کرتا رہا جب متاثرین کی تعداد حد سے تجاوز کرگئی تو پینٹا گون نے اقرار کیا ’’کیمیاوی ہتھیار استعمال تو کیے گئے تھے‘‘۔ جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے چیک کیا گیا تو اندازہ لگایا گیا کہ تقریباً ایک لاکھ امریکی سپاہیوں میں سیرین گیس کے آثار پائے جا سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی سپاہیوں کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ پہلے بخار کی ویکسین لیں۔ اس ویکسینیشن کے نتیجے میں تین لاکھ تیس ہزار سپاہی ہیپا ٹائٹس بی کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر برزر نسکی نے 1998 میں انکشاف کیا تھا کہ ’’یہ جو سرکاری کہانی سنائی جاتی ہے کہ امریکا نے 1979 میں سوویت حملے کے بعد افغانستان کی حزب مخالف کو فوجی امداد دی تھی بالکل جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روسیوں کے حملہ آور ہونے سے تقریباً چھ ماہ قبل ہی امریکا نے مجاہدین کی مدد کرنا شروع کردی تھی۔ یہ امداد صرف اور صرف روسی فوجی مداخلت کو یقینی بنانے اور انہیں حملہ کے لیے راغب کرنے کے لیے تھی‘‘۔ اس جنگ نے افغان سرزمین کو خون میں نہلادیا تھا۔ ایک پوری نسل اس کا شکار بنی۔ آدھی آبادی یا تو ہلاک ہوگئی یا معذور ہوگئی یا پھر مہاجر بن گئی۔ یہ افغانستان کے عوام کے لیے امریکا کی دوستی کا تحفہ تھا۔ عراق میں امریکی کاروائیوں کے نتیجے میں نصف ملین بچے مرگئے۔ یہ تعداد ہیرو شیما میں مرنے والے بچوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی لیکن میڈلین البرائٹ نے مخصوص انداز میں بھنویں اچکاتے ہوئے کہا تھا ’’گو کہ ایک سخت راستہ ہے مگر میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘۔
یکایک برباد ہوجانے والی ہماری معیشت ہماری اپنی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی بعید ازقیاس نہیں ہے کہ اس معاشی سبوتاژ میں امریکا کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ چین اور روس سے دور کرنے کے لیے ہمیں اس معاشی بحران میں مبتلا کیا گیا کہ بالآخر ہمیں امریکا کا ’’احترام‘‘ کرنا پڑا۔ امریکا کے پیروں کو ہاتھ لگانا پڑا۔ یہ جو دعوے کیے جارہے ہیں کہ امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات ہوگی بے وقوف بننے والی بات ہے۔ امریکا کسی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات نہیں کرتا۔ امریکا اچھا برتائو اس لیے کرتا ہے کہ سول اور فوجی حکمران، بیورو کریسی اور سیاست دان اس کے لیے اپنے ملک سے غداری کر سکیں۔ اس دورے میں صرف عمران خان اور ٹرمپ کو فوکس کیا جارہا ہے۔ جنرل باجوہ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کیا کچھ طے ہوا، یہ کہیں موضوع بحث ہے اور نہ کسی کو اس کی خبر ہے۔ رہے عوام تو وہ آج کل کسی شمارمیں نہیں۔ کسی کو فکر نہیں کہ روٹی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر عوام کی بدحالی پر توجہ نہ دی تو شاید وہ اپنی نصف مدت بھی پوری نہ کرسکے۔ ایسے میں امریکا عمران خان کو بچانے نہیں آئے گا۔ وہ لاکھ امریکا کا احترام کرتے رہیں۔ لاکھ امریکا کے ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کرتے رہیں۔