کروں گا کیا جو ’’کرپشن‘‘ میں ہو گیا ناکام

1083

یارِ عزیز خواجہ عبدالعزیزکو زمانۂ طالب علمی ہی سے سیاست کا ہوکا تھا۔ کالج اور یونیورسٹی کے دور سے جوڑ توڑ ہی نہیں، توڑ پھوڑ میں بھی ید طولیٰ رکھنے لگے تھے۔ بعد کو اس مہارت میں مزید اضافہ ہوا اور جولاں گاہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ قدم عملی زندگی میں رکھا تو رکھتے ہی پھچ سے عملی سیاست میں جا پڑا۔ اُستادِ محترم اُن کی مختلف سیاسی سمتوں میں ہونے والی پیش قدمیوں کو دیکھ دیکھ کر ہنسا کرتے تھے کہ:
ابھی ان کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
مگر اُستاد جی ہنستے کے ہنستے ہی رہ گئے اور خواجہ صاحب یکے بعد دیگرے کئی کئی پارٹیاں پھاند گئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اور پھلانگتے ہی پھلانگتے کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ جب بھی اخبار میں اُن کا کوئی تازہ بیان ’پ۔ر‘ کے پر لگاکر اُڑتا نظر آتا، محلے کے ممتاز دانشور میاں ممتاز مسافر اِس تازہ بیان کا موازنہ اُن کے کسی باسی بیان سے کرنے بیٹھ جاتے۔ پھر یہ کہتے ہوئے اُٹھتے:
’’واللہ! اگر یہ شخص زبانی اور بیانی قلابازیاں کھانے میں کمال دکھانے کے بجائے، اتنی ہی محنت جسمانی قلابازیوں کے کرتب دکھانے میں کرتا تو جمناسٹک میں عالمی شہرت رکھنے والے ماہر ’قلاباز‘ کے منصب پر فائز ہو چکا ہوتا‘‘۔
ایک روز کا ذکر ہے … اور اُس روز بارہ برس بیت چکے تھے کہ خواجہ کی کوئی ’خیر‘ خبر نہیں ملی تھی، جو خبر بھی آتی بری ہی آتی، اخبارات میں اُن کی طرف سے جاری کیے جانے والے کسی ’خیرمقدمی‘ بیان کا ذکر شائع ہو رہا تھا نہ کسی ’مذمتی‘ بیان کا۔ یار لوگوں کو خدشہ ہوا کہ خواجہ کہیں خار زارِ سیاست … بلکہ ’خوار زارِ سیاست‘… سے خارج ہی نہ ہو گئے ہوں… پر جس روز کا یہ ذکر ہے… اُس روز ہوا یوں کہ شہر کی ایک اہم شاہراہ پر خواجہ صاحب سفید کاٹن کا (کلف لگا) شلوار قمیض سوٹ اور اوپر سے سیاہ واسکٹ پہنے اپنی پجارو سے اُترتے نظر آئے۔ اُن کے ایک ہاتھ میں بریف کیس اور دوسرے ہاتھ سے کان کو لگا ہوا موبائل فون تھا۔
صاحبو! اب تو اُس منظر کو ہمیں دیکھے ہوئے بھی بارہ برس سے کہیں زائد بیت چکے ہیں۔ وہ موبائل فون آج کی طرح کا موبائل فون نہ تھا جو کسی ’بٹیرے‘ کی طرح مٹھی میں سما جاتا ہے۔ جہازی سائز کا اینٹینا لگا ہوا فون تھا، جس کی بیٹری اور چارجر لے کر چلنے کے لیے ایک آدمی الگ سے رکھنا پڑتا تھا۔ فون بردار ’وی آئی پی‘ جس دفتر میں بھی قدم رکھتا، پہلے میزبان کی میز پر چارجر رکھتا، پھر بیٹری رکھتا، پھر موبائل فون رکھتا، پھر تشریف رکھتا۔
جب خواجہ اپنی گاڑی سے اُتر کر ایک ’بدنام بینک لمٹیڈ‘ کی طرف پیش قدمی کرتے نظر آئے تو ہم نے لپک کر اُن کو آواز دی:
’’اَماں خواجہ صاحیب!!‘‘
مگر ہماری حیرت و مسرت بھری پکار … بلکہ للکار… سن کر بھی خواجہ صاحب کی چال، ڈھال اور ’کال‘ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ فقط پلٹے، پلٹ کر پیچھے دیکھا اور اپنے موبائل کے غیر مرئی سامع سے مذاکرات جاری رکھتے ہوئے رفتہ رفتہ ہماری طرف بڑھے:
’’ہاں ہاں … یہ ٹھیک ہے… خرید لے، خرید لے… نہیں، نہیں … یہ ٹھیک نہیں… بیچ دے، بیچ دے‘‘۔
یہی تکرار کرتے ہوئے اپنی غیر معروف سائڈ… یعنی بریف کیس والی بائیں سائڈ… سے ، اِس حقیر، فقیر، پُر تقصیر سے بغل گیر ہوئے… اور بغل گیر بھی کیا ہوئے… بس یوں سمجھ لیجیے کہ نہایت سرسری انداز سے اپنے بائیں پہلو سے اِس عاجز کے دائیں پہلو کو چھو کر چھوڑ دیا۔ چھوڑنے کے بعد یکایک نہ جانے کیا خیال آیا کہ بریس کیس فرش پر رکھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے ہمارا دایاں بازو پکڑ لیا اور موبائل پر:
’’ہاں ہاں … نہیں نہیں… ٹھیک ہے، ٹھیک ہے… نہیں نہیں…غلط ہے…‘‘
کی رٹ لگائے رکھی۔ بازو اتنی مضبوطی سے تھام رکھا تھا گویا گرفت ڈھیلی پڑی تو گرفتار مجرم بگٹٹ بھاگ لے گا۔ خدا خدا کرکے اُن کی بات بس ہوئی تو اپنے موبائل فون کا کوئی بٹن دبا کراُس کی بھی بولتی بند کی اور اُس کا نازک اینٹینا اپنی موٹی تازی ہتھیلی مار کر موبائل کے اندر کرتے ہوئے یہ کہہ کر بینک کے اندر گھس گئے کہ:
’’دو منٹ یہیں کھڑے رہنا، میں ابھی واپس آیا‘‘۔
واپس تو خیر وہ کوئی بیس پچیس ’’دو منٹ‘‘ گزر جانے کے بعد آئے۔ مگر چوں کہ ہمیں خود اُن کی خیریت خداوند کریم سے نیک مطلوب تھی، لہٰذا طالبِ خیر بن کر وہیں ڈٹے کھڑے رہے۔ اُن کے باہر نکلتے ہی جھٹ اُن سے وہ سوال پوچھ لیا جو ہر کوئی پوچھتا پھرتا تھا:
’’خواجہ! تمہیں ہوا کیا ہے؟ یار لوگ تو یہ توقع کر رہے تھے کہ میدانِ سیاست میں بھی ہمارا خواجہ بلند بام ہوگا، مگر یہ کیا ہوا؟
آگ دو دن میں ہو گئی ٹھنڈی؟
حضرتِ دل دکھا گئے جھنڈی؟
کہیں تم نے کوئی معقول پیشہ تو اختیار نہیں کر لیا؟‘‘
’’نہیں نہیں… ہرگز نہیں‘‘۔
کہتے ہوئے ایک بار پھر ہمارا بازو تھام لیا اور بولے:
’’تمہارے اس مختصر سے سوال کا میرے پاس بہت لمبا چوڑا جواب ہے۔ آؤ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ‘‘۔
گاڑی چلی تو اُ ن کی زبان بھی چل پڑی۔ کہنے لگے:
’’طویل سیاسی تجربات کے بعد اب میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ملک میں اب ’فردِ واحد‘ کی سیاست نہیں چلے گی‘‘۔
ہم خواجہ کی زبان سے ایسی دانش بھری بات سن کر دنگ رہ گئے۔ بڑے جوش و خروش سے اُن کی تائید کی:
’’ہاں میاں… عوامی شعور اب خاصا ترقی کر چکا ہے… اب انفرادی سیاست نہیں چلے گی‘‘۔
خواجہ بھی ہماری تائید سے خوش ہوئے اور کہنے لگے:
’’ہاں اور کیا؟ یہی تو میں نے بھی سوچا ہے کہ اب…‘‘
ہم نے اُن کی سوچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا:
’’خواجہ! خدا کے واسطے اب کسی مفاد پرست شخص کا ساتھ نہ دینا۔ اب کسی صحیح معنوں میں جمہوری سیاسی جماعت سے وابستگی …‘‘
ابھی ہماری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ خواجہ بھڑک اُٹھے۔ بھڑک کربولے:
’’ایسی کی تیسی جمہوری سیاسی جماعت کی … اور اُس سے بھی زیادہ ایسی کی تیسی جمہوریت کی…‘‘
ہم ایک بار پھر دنگ رہ گئے۔ خواجہ بولے:
’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس ملک میں اب ’فردِ واحد‘ کی سیاست نہیں چلے گی۔ اب صرف خاندانی سیاست چلے گی۔ پچھلے بارہ برسوں میں ہوا یہ ہے کہ میں نے شادی کرلی ہے۔ پہلا بیٹا گیارہ برس کا ہوچکا ہے۔ جلد ہی سیاست میں نمودار ہوگا اور… راج کرے گا … خواجہ خاندان!‘‘
تب ہم نے سوچا:
وہ سارے فیصلے توڑے گا اور اِک دن اچانک پھر
کرپشن کی نئی صورت کوئی ایجاد کر لے گا
مگر جب سے پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے تب سے خواجہ اپنا سر پکڑ کر یہ شعر پڑھا کرتے ہیں:
کروں گا کیا جو ’’کرپشن‘‘ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا