پاکستان کے قیام کے بعد عملاً یہی کچھ ہوا۔ اس تحریک میں مخلص عام مسلمانوں کے ساتھ اشتراکی‘ لادینی‘ قادیانی اور دیگر مفاد پرست بھی شامل ہوئے اور اسلام کا نعرہ لگا کر اپنا وزن علیحدہ مملکت کے قیام میں ڈال دیا‘ تاکہ ہندو اکثریت اور انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر اپنے مسلمانوں پر ہر جائز اور ناجائز ذرائع سے حکمرانی کریں اور اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ نظریاتی مملکت کے قیام کے لیے نظریاتی بنیادیں لازمی ہوتی ہیں لیکن بنیادوں پر کام ہی نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً بقول شاعر
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوارا کج
عدالتی تحقیقاتی کمیشن اور اس کی رپورٹ
مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور جماعت کے دیگر رہنما اپنی گرفتاری کے چھے (۶) ماہ بعد رہا کردیے گئے۔ میاں طفیل محمد ۲۲ ؍فروری ۱۹۵۴ء کو رہا ہوئے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی بنا پر وہ انڈیمنٹی ایکٹ (Indemnity Act) غیر قانونی قرار دے دیا گیا‘ جس کے تحت مارشل لا کی سزائیں بحال رکھی گئی تھیں۔ اس ایکٹ کی تنسیخ کے بعد مولانا مودودی کو ۲۹ ؍اپریل ۱۹۵۵ء کو ملتان جیل سے رہا کردیا گیا۔
ان فسادات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا‘ جس میں قادیانی مسئلہ زیر بحث آیا۔ عدالت نے جولای ۱۹۵۳ء سے فروری ۱۹۵۴ء کے اختتام تک اپنی تحقیقات جاری رکھیں۔ مولانا مودودیؒ کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ زبانی جرح کے علاوہ مولانا مودودیؒ نے تین تحریری بیان بھی داخل کیے‘ جن میں اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور کمیشن کی طرف سے قادیانیت کے بارے میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا مفصل جواب دیا گیا۔ پھر جب کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو یہ صرف جماعت اسلامی تھی جس نے رپورٹ پر مفصل علمی تبصرہ کیا اور اس معاندانہ اور شرارت پر مبنی رپورٹ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ جماعت کا یہ تبصرہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ تحقیقاتی عدالت نے ۳۸۷ صفحات پر مشتمل ایک مفصل رپورٹ حکومت پنجاب کو پیش کی‘ جو اپریل ۱۹۵۴ء میں عوام کے سامنے آئی۔
تحقیقات کا غلط طریقہ کار
اول تو یہ کہ اس مسئلہ کو صوبائی مسئلہ قرار دیا گیا‘ جبکہ اس کا مرکز سے گہرا تعلق تھا اور مرکز کے بجائے پنجاب کی حکومت کی طرف سے تحقیقات کرائی گئی اور مارشل لا کے نظم و نسق کو سرے سے دائرہ تحقیق سے خارج رکھا گیا۔ فوج کو قانون اور انصاف سے بالاتر رکھا گیا‘ کہ وہ جو بھی کر گزرے اس کے بارے میں نہ تو تحقیقات کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اپنے اقدامات کے لیے جواب دہ ہے۔
غلط سرکاری اطلاعات
عدالت نے واقعات کے رونما ہونے اور ان سے نتائج اخذ کرنے اور فیصلہ دینے میں بڑی حد تک ان سرکاری شہادتوں پر انحصار کیا‘ جو زیادہ تر سی آئی ڈی کی غلط اور جھوٹی اطلاعات پر مبنی تھیں۔ رپورٹ میں ص نمبر ۱۰۹ میں پنجاب کے سیکرٹری داخلہ کا ایک طویل مراسلہ شامل ہے‘ جو ۲۱؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ڈپٹی ہوم سیکرٹری پاکستان کے نام بھیجا گیا۔ جس میں دانستہ طور پر دو صریح غلط بیانیاں کی گئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے آٹھ مطالبات کے ساتھ جو نواں مطالبہ مرزائیوں کو الگ اقلیت قرار دینے کے بارے میں ہے‘ اس میں انہوں نے سرظفر اللہ خان کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کا مطالبہ بھی شامل کیا تھا‘ جو صریحاً غلط بیانی تھی۔ اسی نویں نکتے میں سر ظفر اللہ خان کا سرے سے ذکر ہی نہیں تھا۔
رپورٹ کی دوسری بڑی غلط بیانی وہ من گھڑت افسانہ تھا‘ جو لاہورکی مجلس عمل کے ارکان کے بارے میں تھا کہ ان میں سے ایک گروہ جو حکومت سے اپنے مطالبات بزور منوانے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن کا حامی ہے۔ وہ مجلس عمل کے شیخ حسا م الدین ‘ جماعت اسلامی کے ملک نصراللہ خان عزیز اور امین احسن اصلاحیؒ، اہل حدیث کے مولانا سید داؤدؒ غزنوی اور جمعیت علمائے اسلام کے عبدالحلیم قاسمی پر مشتمل ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ مجلس عمل میں صرف شیخ حسام الدین ڈائریکٹ ایکشن کے حامی تھے اور وہ بھی جماعت کے ملک نصراللہ خان عزیز کے سمجھانے پر اپنی رائے بدل چکے تھے۔
(جاری ہے)