دورہ ارض قرآن کے دوران اپنے سفر نامے میں محمد عاصم الحداد جو مولانا مودودیؒ کے ہمسفر تھے‘ بیان کرتے ہیں کہ: ہم ۲۲ ؍نومبر ۱۹۵۹ء کو امیر مساعد بن عبدالرحمن سے ملنے ان کے مکان پر گئے‘ جو مولانا کو اچھی طرح جانتے تھے۔ امیر مساعد نے بتایا کہ جن دنوں مولانا مودودیؒ پھانسی کی سزا کے منسوخی کے بعد عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے‘ ان دنوں شاہ سعود پاکستان کے دورے پر تشریف لے گئے تھے تو میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ شاہ سعود نے پاکستان کے اس وقت کے گورنر جنرل مسٹر غلام محمد سے مولانا کو رہا کرنے کی سفارش کی (یاد رہے کہ اس سے پہلے مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر دنیائے اسلام کے جن سربراہوں اور علمائے کرام نے صدائے احتجاج بلند کی تھی اور اسے منسوخ کرنے کی اپیل کی تھی‘ اس میں شاہ سعود سرفہرست تھے) تو انہوں نے جواب دیا کہ مولانا معافی مانگ لیں تو ہم انہیں رہا کردیں گے۔ لیکن چوںکہ مولانا نے معافی مانگنے سے ہر بار سختی سے انکار کیا چنانچہ انہیں فوری رہائی نہ مل سکی۔ امیر مساعد نے مولانا کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعا دی کہ خدا نہیں اس کا اجر عظیم عطا کرے۔
مولانا کی سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی صلاحیت بہت پہلے ان حالات اور اندیشوں کا ادراک کرچکی تھی کہ حکومت کا نظام‘ اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ اور اس میں تغیّر کے بغیر کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیّر نہیں لایا جاسکتا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ‘ محمد تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر جیسے جلیل القدر حکمراں اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میںکوئی پائیدار تغیّر نہیں لاسکے۔ کیوںکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اسلامی اور اخلاقی اصلاح کے لیے نہ تو تربیت یافتہ تھی اور نہ تیار تھی۔ یہ نقطہ نظر مولانا مودودیؒ نے ۱۲؍ ستمبر ۱۹۴۰ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں اپنے مقالے میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے یہ مقالہ ’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘ کے عنوان سے پیش کیا تھا۔
انہوں نے اس خیال اور فکر کی بھرپور نفی کی کہ اگر ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کی سہی مسلمانوں کی قومی ریاست قائم ہوجائے تو پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعے اس کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے سیکولر جمہوری نظام میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو اور ووٹر اگر اسلامی کیریکٹر سے عاری ہیں تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ قسم کے وہ افراد منتخب ہوکر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آسکتے‘ جو نام کے مسلمان اور نظریات اور طریقہ کار کے اعتبار سے بے لاگ عدل اور بے لچک اصولوں سے کوسوں دور ہوں گے۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے‘ بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر۔ کیوںکہ وہ ’’قومی حکومت‘‘ جس پر اسلام کا مصنوعی لیبل لگا ہوگا‘ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری و بے باک ہوگی‘ جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے‘ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے۔ مسلم قومی حکومت ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی۔