تحفظ حقوق خواجہ سرا بل کے مضمرات

998

قومِ لوط کے بارے میں فرمایا: ’’اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو، بلکہ تم (حیوانوں کی) حد سے (بھی) تجاوز کرنے والے ہو، (الاعراف: 80-81)‘‘۔ آگے چل کر فرمایا (1): ’’اور ہم نے اُن پر پتھر برسائے، سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا، (الاعراف: 84)‘‘۔ (2) ’’پس جب ہمارا عذاب آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کا اوپر والا حصہ نیچے والا بنادیا اور ہم نے ان کے اوپر لگاتار پتھر کے کنکر برسائے جو آپ کے ربّ کی طرف سے (اپنے ہدف کے لیے) نشان زَد ہ تھے اور یہ سزا ظالموں سے کچھ دور نہ تھی، (ہود: 82-83)‘‘۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا: ’’مجھے اپنی امت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے، وہ قومِ لوط کا عمل ہے، (سنن ترمذی)‘‘۔
سو ہمارے پرجوش مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ کسی جدید مسئلے پر فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے عواقب پر ضرور غور فرمائیں یا اپنے اکابر سے مشاورت کرلیا کریں، جن باتوں کے فروغ کے پسِ پردہ این جی اوز کارفرما ہوں اور وہ اتنی مؤثر ہوں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے تساہُل اور شہرت پسندی کے سبب پارلیمنٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہوں، تو یقینا اُن کے پیچھے عالمی ایجنڈا اور دور رس ودیرپا مقاصد ہوتے ہیں، پھر وہ معاملات کی تشریح اپنے مقاصد کے تحت کرتے ہیں اور کسی قسم کی لفظی ہیرپھیر سے گریز نہیں کرتے، نیز جب ایک لفظ یا اصطلاح متعدد یا متضاد معانی کی حامل ہو تو اس کے بارے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
سینیٹ میں پاس کردہ ’’تحفظِ حقوقِ خواجہ سرا بِل‘‘ میں بھی یہ شرارت شامل ہے۔ بِل کی دفعہ 3میں کہا گیا ہے: ’’(۱) ایک Transgender Personکو یہ حق حاصل ہوگا کہ اُسے اس کے اپنے خیال یا گمان یا زعم (Self Perceived) کے مطابق اُسے خواجہ سرا تسلیم کیا جائے‘‘۔ یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدائشی طور پر مردانہ خصوصیات کاحامل تھا یا زنانہ، وہ اپنے بارے میں جیسا گمان کرے یا وہ جیسا بننا چاہے، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا اور ذیلی سیکشن 2میں کہا گیا ہے کہ نادرا سمیت تمام سرکاری محکموں کو اس کے اپنے دعوے کے مطابق اُسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہوگا اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اُسے نادرا سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
اس بل میں یہی وہ شق ہے جو مغرب میں LGBT گروپ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے، تحفظِ حقوقِ خواجہ سرا بل کے نام پر یہی وہ روزن ہے، جہاں سے نقب لگایا جاسکتا ہے، ہمیں غالب یقین ہے کہ جن چار سینیٹرز کی طرف سے یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے، انہیں بھی اس کے عواقب اور اس کی بنیادوں میں نصب کردہ بارود (Dynamite) کا علم نہیں ہوگا، عالَم غیب سے ان کے ہاتھ میں ایک چیز تھمادی گئی اور انہوں نے سینیٹ میں قانون سازی کے لیے تحریک پیش کردی۔ سینیٹ میں پاس شدہ ’’چائلڈ میرج ایکٹ‘‘ میں ترمیمی بل تو سرِدست بے اثر ہوگیا، کیوںکہ اُسے کسی نے اسمبلی میں پیش نہیں کیا، لیکن تازہ ترین معلومات کے مطابق ’’خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کا بِل‘‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد ایکٹ یعنی قانون بن چکا ہے، ملاحظہ ہو: ’’دی گزٹ آف پاکستان، اشاعت: 24مئی 2018ء‘‘۔
اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدائش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں، انہی کے مطابق ان کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے، لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقا کے طور پر کسی کی جنس میں تغیر آگیا ہے، تو اس کا فیصلہ میڈیکل ایگزامینشن یعنی طبی معائنے سے ہونا چاہیے، نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ اس بل میں کہا گیا ہے اور یہی عالمی سطح پر LGBT گروپ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پزیرائی مل رہی ہے۔ دینی تعلیمات اور دینی اقدار میں تو اس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ ہماری تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار میں بھی اس کی گنجائش نہیں ہے، یہ تو زرخیز زمین میں ببول کا درخت اگانے کی مذموم کوشش ہے، جس کا راستہ پرامن طریقے سے روکنا ہر مسلمان اور پاکستانی کی ذمے داری ہے، خاص طور پر ارکانِ پارلیمنٹ پر اس کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ یا تو اپنی پارٹی کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور یا وہ اس طرح کے قانونی مسوّدوں کے اسرار ورموز کو جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یہ بات ناگوار ضرور ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اسی لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، تاکہ ہر مسوّدۂ قانون کا گہرا جائزہ لیا جائے، ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے اس پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اگر کوئی مسودۂ قانون فنی امور سے متعلق ہے، تو اس شعبے کے متخصصین اور فنی ماہرین کو بلاکر پارلیمنٹ کی کمیٹی آگہی اور رہنمائی حاصل کرسکتی ہے۔
اس بل میں ایک اور تضاد بھی ہے: اس بل کی دفعہ 4ذیلی دفعہ Eمیں کہا گیا ہے: ’’ہرطرح کے سامان، رہائش گاہ، خدمات، سہولتوں، فوائد، استحقاق یا مواقع جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں، خواجہ سرائوں کے لیے اُن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘۔ جبکہ دفعہ 6کی ذیلی دفعہ Eمیں کہا گیا ہے: ’’خواجہ سرائوں کے لیے خصوصی جیل خانے، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہونے چاہییں، لیکن عام پبلک مقامات تک اُن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہونی چاہیے، مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ ٹوائلٹ اور واش روم بھی جاسکتا ہے، وغیرہ۔ الغرض ایک طرف مردو زن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ ہے، اس تضاد کے کیا معنی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان لڑکی کسی آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے اور اس کے سرپرست رسائی اور تحویل میں لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو عدالت اُسے ’’دارالامان‘‘ بھیج دیتی ہے، لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو نومسلم ہندو لڑکیوں کو اُن کے ہندو ماں باپ کی تحویل میں دیا، ایسے تضادات ناقابلِ فہم ہیں۔
خواجہ سرا کے لیے وراثت میں حصہ: بل کی دفعہ7کی ذیلی دفعہ 3(III) میں کہا گیا ہے (a): ’’اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے پر وراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (b) میں کہا گیا ہے: ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (c) میں کہا گیا ہے: ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تو اُسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا، (d) میں کہا گیا ہے: اٹھارہ سال سے کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعیُّن میڈیکل آفیسر طے کرے گا۔
اسلام میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے، اس میں عمر کے لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر مُورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی، تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہوگا۔ نیز صنف کا تعیُّن پیدائش کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے، اس کا تعلق کسی کے اپنے گمان وخیال یا خواہش سے نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے، تو بھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاسکتی۔ Self Perception یعنی کسی کی اپنی خواہش پر جنس کے تعیُّن کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دیدے، تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہوجائے گا، شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے، سو شریعت کی رُو سے اس بل میں یہ بہت بڑا تضاد اور ابہام ہے۔ نوٹ: خُنثٰی کی وراثت پر ہم الگ سے تفصیلی فتویٰ لکھ رہے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں نسوانی وضع اختیارکرنے والے مردوں اور مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے:
(1) ’’سیدنا ابن عباس بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے اُن مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور اُن عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو، انہوں نے کہا: سیدنا عمر نے بھی ایسے ایک شخص کو گھر سے نکال دیا، (بخاری)‘‘۔ (2) ’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، (مسند احمد)‘‘۔ (3) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی ؐ کے سامنے ایک مُخَنَّث لایا گیا جس کے ہاتھ اور پائوں پر مہندی لگی ہوئی تھی، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے، عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے، آپ نے اُسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم اسے قتل نہ کردیں؟، آپ ؐ نے فرمایا: مجھے مسلمانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، (سنن ابودائود)‘‘۔ (4) ’’سیدہ ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں: ایک خواجہ سرا حضور کے گھر آیا کرتا تھا، ایک بار آپ نے اُسے ایک عورت کی جسمانی ساخت پر گفتگو کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: اسے گھروں سے نکال دو، (ابودائود)‘‘۔ (5) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے زنانہ لباس پہننے والے مردوں پر اور مردانہ لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، (سنن ابودائود)‘‘۔