اخوان المسلمین: تحریکات اسلامی کے لیے سبق

1532

 

 

سامراجی قوت کے بل پر قومی ریاستوں کی شکل میں بکھری ہوئی امت مسلمہ کی سب سے بڑی مصیبت ان کی پیشہ ور فوج، عدلیہ اور میڈیا کی تکون ہے۔ یہ ادارے آج بھی سامراج کی غلامی اسی طرح کر رہے ہیں جیسے عہدِ غلامی میں براہ راست اپنے مغربی آقائوں کی موجودگی میں کرتے تھے۔ مغربی نظام تعلیم کے ذریعے اس کے تسلسل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ ادارے ایک طرف سامراجی نظام کے تسلسل کا ذریعہ ہیں، دوسری طرف انہوں نے ایک کام کا تہیہ کیا ہوا ہے کہ حقیقی آزادی سے ہمکنار کرنے والی طاقت، اسلام اور اسلامی تحریکوں کو غالب ہونے سے روکنا اور مسلم روح کو کچلنا ہے۔ اسرائیل و امریکا کی ساری دنیا میں ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جو جنگ ہے وہ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہے۔ ان دہشت گرد ریاستوں کے نزدیک اسلام ’’دہشت گردی‘‘ کا مترادف ہے۔ کیوںکہ اسلام حقیقی آزادی یعنی بندگی خدا سے ہمکنار کرنے والی دنیا کی واحد قوت ہے۔
دوسری طرف مغرب جبر کے ذریعہ اپنا عقیدہ پوری دنیا خصوصاً مسلم دنیا پر تھوپنا چاہتا ہے۔ جس طرح مسلم عقائد کے تین بنیادی ستون ہیں 1۔ توحید، 2۔ رسالت اور 3۔ آخرت۔ اسی طرح مغربی عقائد کے بھی تین بنیادی ستون ہیں۔ 1۔ آزادی، 2۔ جمہوریت اور 3۔ ترقی۔ اور یہ دو مختلف نظام کے تین متضاد عقائد ہیں۔ ان اصطلاحات سے مسلم دنیا اور ان کے اکابرین بارہا دھوکا کھا رہے ہیں۔ اسلام کے تین بنیادی عقائد کا ماخذ قرآن و سنت ہے جب کہ مغرب کے تین عقائد کی بنیاد خواہشات نفسانی ہے۔ لبرلزم، سیکولرزم، کیپٹلزم، سوشلزم اور ماڈرنزم جیسے فلسفے انہی خواہشاتِ نفسانی کا فکری اظہار ہیں۔
توحید کے عقیدے میں خدا، کائنات اور انسان کی وحدت اور اس کے مابین تعلق کی نوعیت خالق اور مخلوق سے محبت ہے، توحیدکے عقیدہ میں آزادی کاتصور اپنے ربّ کی بندگی میں ہے۔ یعنی حقیقی خدا کی غلامی اختیار کرکے ہی انسان تمام جھوٹے خداؤں اور طاقتوں سے آزاد ہو سکتا ہے۔ جب کہ مغرب کے آزادی کے عقیدہ میں پہلی شرط یہ خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی ہے۔ ان کے یہاں مذہب کا تعلق زیادہ سے زیادہ مسجد، مندر، چرچ اور گردوارہ تک بند رہنا ہے۔ مغرب کی آزادی مادر پدر آزادی ہے جب کی اسلام میں آزادی ربّ کی مکمل بندگی سے حاصل ہوتی ہے۔
اسلام کے دوسرے عقیدے ’’رسالت‘‘ میں اپنے رسول یعنی خلق عظیم ؐ کی مکمل اطاعت اور پیروی ہے جب کہ مغرب کے جمہوری عقیدے میں جمہور (عوام) کی خواہشات کو بروئے کار لانا ہے۔ عملاً اس میں اکثریت (رنگ، نسل، زبان، قومیت خواہ کسی بنیاد پر ہو) میں سے ایک اقلیت منظم جدوجہد کے ذریعہ، اور انتخابی نظام پر کنٹرول کر کے (جس کی پشت پر سول اور فوجی بیوروکریسی، انتخابی کمیشن اور عدلیہ ہوتی ہے) اکثریتی نشستیں حاصل کر لیتی ہے۔ اگر ووٹ کا تناسب دیکھا جائے تو وہ 10 سے 20 فی صد سے زیادہ نہیں ہوتا ہے لیکن وہ اکثریت پر حکمران بن کر اپنا عقیدہ تھوپ دیتی ہے۔
اسلام کا تیسرا بڑا عقیدہ ’’آخرت‘‘ کا ہے یعنی اصل کامیابی آخرت کی کامیابی اور اصل ترقی آخرت کے مدارج کی ترقی ہے، جب کہ اس کے مقابلہ میں مغرب کی ’’ترقی‘‘ کا عقیدہ صرف اور صرف دنیا کی ترقی ہے۔ مغرب ترقی کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتا ہے جس میں آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ ’’ترقی‘‘ (development) کا ہر ماڈل سود، سٹہ، جوا، لاٹری، مارگیج اور کرپشن کا ماڈل ہے۔
مغرب نے ہر جگہ سیاسی حکمرانی کا ایسا ماڈل بنایا ہوا ہے جس میں ان کے عقائد آزادی، جمہوریت، اور ترقی کا نفاذ یقینی ہو۔ اس سے انحراف کرنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔ فوج، سول بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا (جس پر عالم اسلام میں مغربی تہذیب کا نگہبان امریکا ہزاروں بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے) ایسے سیاسی نظام کے قیام کو یقینی بناتے ہیں۔ ان عقائد سے بغاوت کرنے والے کی سزا موت سے کم نہیں۔ اسلام کے عقائد سے انحراف (ارتداد) پر ایک مسلم فرد، اسلامی حکومت میں موت کی سزا پائے گا۔ لیکن مغربی عقائد کے ارتداد سے پوری قوم، پوری نسل، شہر، اور ان کی آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے گزشتہ برسوں میں کتنی قوموں اور ممالک کو مغربی ارتداد کی سزا قتل عام کی شکل میں پاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے لیے انگریزی الفاظ ’’اسموکڈ آؤٹ‘‘، ’’فلشڈ آؤٹ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سنے اور پڑھے۔ گویا مغرب کے ان ’’مرتدین‘‘ کی حیثیت کیڑے، مکوڑے، چوہوں اور پرندوں سے بھی بدتر ہے۔
اگر کہیں سے بھی مغربی عقائد کے اس نظام میں خلا پیدا اور روکنے کی تمام تدبیر کے بعد کوئی اسلامی تحریک کا داعی حکومت میں آگیا تو پوری طاقت سے اسے ہٹانے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ افغانستان میں پہلے افغان مجاہدین کی حکومت اور اس کے بعد طالبان کی حکومت کو بذریعہ طاقت ہٹایا گیا، الجزائر کی منتخب اسلامی تحریک کو فوجی قوت سے کچلا گیا۔ طیب اردوان کے خلاف بھی فوج کھڑی ہو گئی تھی لیکن خوش قسمتی سے ابھی وہ بچ گئے ہیں۔ اخوان المسلمون پر ہر جگہ پابندی لگ چکی تھی۔ 2005 کے مصر کے محدود انتخاب میں وہ جماعت کی حیثیت سے نہیں بلکہ انفرادی اور آزادانہ طریقہ سے شامل ہوئی تھی۔ عرب خزاں (المعروف عرب بہار) کے بعد مصر کے 2012 کے الیکشن میں وہ نئی جماعت فریڈم اور جسٹس پارٹی کے نام سے میدان میں آئی تھی۔ اخوان کے صدارتی امیدوار محمد خیرت سعد الشاطر تھے۔ خطرہ تھا کہ انہیں نااہل کر کے انتخاب میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا اسی لیے محمد مرسی کو ایک متبادل امیدوار کے طور پر لایا گیا تھا۔ عین ایسا ہی ہوا اور محمد خیرت الشاطر ناہل قرار پائے اور محمد مرسی اخوان کے صدارتی امیدوار بن گئے۔ دشمن کو محمد مرسی کی کامیابی کا یقین نہ تھا۔ لیکن کامیابی کے ساتھ ہی ان کی حکومت کو گرانے کی ترکیبوں پر کام شروع ہوا۔ سب سے پہلے مصر کی عالمی امداد بند کی گئی جس کے نتیجے میں اشیائے ضرورت کی قلت اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ منظم عیسائی اقلیت، لبرل اور سیکولر طاقتوں نے عوام کو سڑکوں پر نکالا۔ بعد میں اخوان کی راہنمائی میں مصری عوام بھی محمد مرسی کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے اور بڑی تعداد میں نکلے۔ لیکن عالمی اور مقامی میڈیا کا کیمرہ پہلے جلسوں اور ریلیوں پر مرکوز رہا اور دوسرے مصری عوام کے جلسوں جلوسوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ 3 جولائی 2013 کو محمد مرسی کی حکومت کا ان کے اپنے ہی قائم کردہ وزیر دفاع السیسی کے ذریعہ خاتمہ ہوا۔ اخوان کے سیکڑوں لوگوں کو نماز فجر میں فائرنگ کر کے بھون ڈالا گیا۔
محمد مرسی فوج، عدلیہ اور میڈیا میں کوئی بنیادی تبدیلی لائے بغیر فلسطینیوں کے جہاد میں شامل ہونے، عالم اسلام کو متحد کرنے، اور علما کانفرنس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلامی ا حیاء کا عزم کر رہے تھے۔ انہیں احساس ہی نہ ہوا (یا انہوں نے نظر انداز کیا کہ) ان کے ملک کی فوج سامراجی نظام کی نمائندہ اور نگران ہے۔ یہ ادارے اس نظام کے تسلسل کے ذمے دار ہیں۔ واضح رہے کہ اخوان المسلمون کبھی تشدد یا مسلح جدوجہد سے انقلاب کی داعی نہیں رہی اور ہمیشہ اس نے پرا من، جمہوری اور انتخابی راستہ ہی منتخب کیا ہے۔ میں انتخابی راستہ کا مخالف نہیں کیوںکہ دعوت اسلامی اور نظام اسلام کے تعارف کے لیے وہ ایک میسر پلیٹ فارم ہے (آمریت اور بادشاہت میں یہ بھی میسر نہیں) لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ اگر کسی طرح اسلامی تحریک (روکنے کی تمام تدابیر) کے باوجود منتخب ہو کرآگئی تو فوج بزور قوت اسے ہٹا دے گی۔ عالمی تحریکات اسلامی کو یہ بات سمجھنا ضروری ہے۔