جواب تو دینا بنتا ہے

660

 

صبیحہ اقبال

دنیا میں دھونس دھاندلی، دھمکانا، ڈرانا، ہٹ دھرمی، قتل وغارت گری، لچر زبانی، فحش گوئی، گالم گلوچ، خود غرضی و نفسانفسی، انانیت و قہاریت سکہ رائج الوقت بنے نظر آتے ہیں۔ ذاتی و طبقاتی مفادات کی جنگ کچھ اس طرح چھڑی ہے کہ لگتا ہے معاشرے میں انسانیت دم توڑ گئی ہے اور ہم اکثر معاشرے کے اس انتشار کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں، بڑھتی ہوئی افراتفری اور خودغرضی پر بات کرتے نہیں تھکتے لیکن کیا معاشرہ ہم سے نہیں؟ اور ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ نہیں؟ کیوں کہ معاشرے کی دو حیثیتیں ہیں۔ (1) طبعی حیثیت انسانی، (2) اخلاقی حیثیت انسانی۔
انسان کی طبعی حیثیت میں حیوانی، جبلّی کیفیات مثلاً بھوک لگنا، نیند آنا۔ موسم کے اثرات کا محسوس کرنا ہے ہر انسان ان کا تابع ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں۔ دوسری حیثیت اخلاقی ہے جو اسے سیّد المخلوقات بناتی ہے۔ اس کے طبعی وجود پر حکومت کرتی ہے اور اسے بطور ایک ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ دین اسلام دراصل انسان کی اسی اخلاقی حیثیت کو اپیل کرتا ہے اور جہاں جہاں اخلاق اثر انداز ہوتا ہے وہیں وہیں دین اسلام اس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ کیوں کہ انسان اخلاقی حیثیت میں تکاثر اور لحب الخیر لشدید کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر اسلام حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے جس میں خالق کے حق اور مخلوقات کے حقوق کی ادائیگی کی ترغیب و تفصیل اور مطالبہ موجود ہے۔ خالق کا حق جو حقیقتاً ادا ہی نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کی نعمتوں کا احساس کرکے تشکر کا رویہ، کلمہ حق بلند کرنا، ذکر، تسبیح، تقدیس کرنا، اس کی طرف سے فرض کیے گئے ارکان کی ادائیگی، اس کی دی ہوئی نعمتوں کا اس ہی کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا، اس کے دیے ہوئے نظام خلافت کو من و عن قبول کرنا اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کرنا ہی خالق کائنات کے حق کو ادا کرنے کے نقشِ پا ہیں یا یوں کہہ لیں کہ شعورِ عبدیت کی دلیل ہیں ورنہ ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ کے مصداق صرف تمنا عبدیت ہے۔ خالق کے بعد مخلوق کے حقوق میں سب سے پہلے انسان کو خود اپنے ہی جسم کی طبعی حیثیت کی ضروریات کی ادائیگی کی طرف ’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے‘‘ کہہ کر خود اپنی ذات کی ضرورت بھوک پیاس، نیند آرام، نفسانی خواہشات کی جائز تکمیل حکم دیا گیا اور خود اپنے ہاتھوں اپنے ذاتی حقوق کی حفاظت کرائی گئی۔ میرا جسم میری مرضی کہہ کر جسم کو جہنم کا ایندھن بنانا اور اصل اپنے ہی جسم کی حق تلفی ہے یا اس کو بے جا تکالیف میں گرفتار کرکے اذیت پہچانا بھی اس کی حق تلفی ہے اللہ پسند نہیں کرتا۔
انسان کا اپنی طبعی حیثیت سے نکل کر اخلاقی حیثیت کا دائرہ عمل پوری انسانیت کے لیے کشادہ کیا گیا۔ والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، اسلامی سوسائٹی کے حقوق، حکمران اور رعایا کے حقوق، استاد و شاگرد کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق آجر اور اجیر کے حقوق پڑوسی کے حقوق، دوستوں کے حق، جانوروں کے حقوق، راستوں کے حقوق (پھر ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حق سلام، چھینک کا جواب، نصیحت، دعوت قبول کرنا۔ عبادت کرنا، جنازے میں شرکت کرنا وغیرہ کی بار بار یاد دہانی)۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ جہاں حقوق ہوتے ہیں وہاں فرائض بھی ہوتے ہیں گویا حقوق و فرائض کا چولی دامن والا ساتھ ہے۔ اگر فرد حق رکھتا ہے تو فرض بھی اس طرح اسلام نے ایک متوازن معاشرہ تشکیل دیا ہے جس میں حقوق و فرائض ساتھ ساتھ ہیں۔ محض حقوق کی ادائیگی ہی پر زور نہیں دیا گیا بلکہ فرائض کی نشاندہی بھی کرائی گئی۔ اس کے ساتھ خلوص کو بھی شامل کیا گیا، ’’تم دوسروں کے عمل کے سبب اپنے عمل تبدیل نہ کرو‘‘ (مفہوم الحدیث) یعنی تم کو جو نیکی کرنی ہے دوسرے کی زیادتی کے سبب تم اس سے باز نہ رہو۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو معاشرے سے انتشار کو ختم کرتا ہے۔ معاشرتی انتشار سے بچنے کا پہلا قدم مجھ پر جس جس کے حقوق ہیں میں انہیں اخلاص کے ساتھ ادا کرتا رہوں اور اپنے عمل پر کسی انسان سے شکر گزاری اور احسان کی اُمید نہ رکھوں۔ فرمایا ’’جس شخص نے کسی مومن کی دنیوی تکلیف میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ قیامت کی سخیتوں میں سے اس کی کوئی سختی دور کردے گا۔ لیکن دیکھا جائے تو ہم سختی دور کرنا تو کجا سختیاں پیدا کرنے والے بنتے جارہے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ بس ایک مثال پہ اکتفا ہے۔ کسی کی بیٹی سے اپنے بیٹے کا نکاح والدین کے فراض کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرنا تھا لیکن آج جو حال احوال ہیں سب پر عیاں ہیں۔ احاطہ تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے اس اخلاقی تنزل کی وجہ اگرچہ ایک طرف وھن میں گرفتاری ہے تو دوسری جانب علم سے دوری بھی کیوں کہ علم انسان میں انکساری پروان چڑھاتا ہے جب کہ جہالت اَنا کی پرورش کرتی ہے۔ جب علم رخصت ہوتا ہے تو ذات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے جملے بتادیتے ہیں کہ ہم اپنے مخاطب کے لیے اپنے دل میں کیا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ سیدنا علیؓ کا قول ہے ’’انسانی شخصیت اس کی زبان تلے پوشیدہ ہے‘‘۔ اور ہماری یہی بری سوچ ہمارے منفی روئیوں کی بنیاد بنتی ہے۔ جس طرح پیر کی موچ چلنے نہیں دیتی اسی طرح منفی سوچ آگے بڑھنے نہیں دیتی اور انسان انتشار کا شکار رہتا ہے۔ ہماری یہ منفی سوچ ہی ہمارے بُرے روئیوں کی وجہ بنتی ہے جس کا علاج فاعفو و صفحو کہہ کر کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے عفو و درگزر کے بغیر گزارہ نہیں۔ ولکاظمین الغیظ ولعافین عن الناس ہی معاشروں کو حقیقی سکون اور ارتقا عطا کرتا ہے۔ خاص کر قریبی متعلقین کے ساتھ جب بار بار بگاڑ کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اس وقت اتفاق و اتحاد قائم رکھنا عفو و درگزر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بُرائی کا بدلہ برائی ہی سے دینے سے لوگ درست ہوتے ہیں۔ ہاں بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر بقدر کیوں کہ یوم الدین میں ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھے جائیں گے۔ جو رائی کے دانے کے برابر بھی خیر و شر کا حساب کریں گے۔ (القرآن) انسان بدلہ نہ لے تو غیبی مدد حاصل رہتی ہے۔ اس ضمن میں سیّدنا ابوبکر کا واقعہ کافی شہرت رکھتا ہے۔
نبی اکرمؐ کا اسوہ کہ آپؐ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے بلکہ آپؐ معاف فرماتے درگزر فرماتے۔ (ترمذی انس)
جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے کے خوف سے حق چھوڑ دیا اس کے لیے جنت کے وسط میں محل کی خوشخبری سنائی گئی۔ (مسلم ابوہریرہ)
جس طرح خیرات کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی اسی طرح معاف کرنے سے عزت میں کمی نہیں آتی۔ اللہ تواضع سے انسان کے درجے بلند کرتا ہے۔
درگزر اور معافی کو مشکل بنانے والی چیز درحقیقت انسان کی اَنا ہے۔
صبر ہمارا کاری ہتھیار ہے جو کبھی کند نہیں ہوسکتا۔ ذات، گھر، معیشت، معمولات، معاملات ہماری تہذیب کو واضح کرتے ہیں اور اسلامی تہذیب کی اہم خوبی خیر خواہی ہے۔ متعلقین، مخاطبین، مخالفین سے معاملات کے درمیان ہمارے رویے کون سے ہوتے ہیں۔ وہاں صبر کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے؟۔
مفتی محمد حسینؒ کہتے ہیں ہمیں انہی لوگوں کے ساتھ گزارہ کرنا ہے فرشتوں کے ساتھ نہیں۔ لہٰذا انسانی روئیوں پر صبر ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔
گو کہ ہمارا ملک اَصلاً ایک اسلامی ملک ہے اور اس کا عقیدہ اللہ کی عبادت اور اللہ کے سوا کسی دوسرے الہ کی نفی کی بنیاد ہے اور آخری نبی کی شریعت کو تکمیل انسانیت کے لیے متعین کردیا گیا لیکن اتنے واضح احکامات اور نبیؐ کے اسوہ کے باوجود ہم کس رویے کے مرتکب ہورہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ معاشرے میں سعید روحیں موجود نہ ہوں بلکہ یا تو انہوں نے تھک کر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے لاتعلق ہوگئے ہیں یا کردیے گئے ہیں، کیوں کہ جب بھی کوئی روحِ سعید معاشرے کو جہالت کے شر سے آزاد کرانے کے لیے میدان میں اُترتی ہے تو نشر و اشاعت کے ذرائع پریس، ریڈیو، ٹی وی اس کی آوازِ حق کو دبانے پر اُتر آتے ہیں اور اس کو رجعت پسند کہہ کر ترقی کے دروازے بند کرنے کا سارا الزام اس پر دھر دیتے ہیں۔ فکر صالح کو دیوار سے لگادیا جاتا ہے، یہ صورت محض معاشرتی اخلاقی زوال تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کی معاشی، سیاسی اور مذہبی زوال کا سبب بھی بن رہی ہے، یوں اس وقت پاکستان میں محض فرد ہی نہیں بلکہ ادارے بھی انتشار کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ ملک میں عدل و قسط کی عدم دستیابی ہے جب معاشرے میں انصاف نہ ہو اور 450 ارب روپے کا کرپٹ ضمانت پر باہر ہو، اور محض 500 روپے کی چوری کے عوض ایک غریب چھترول کھا کھا کر اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے، جہاں 200 افراد کا قاتل نظر نہ آتا ہو، جہاں معلومات تو ساری ہوں مگر نام نہاد قانون ثبوت مانگتا ہو اور یہ کہ مسائل اثر و رسوخ کی بنیاد پر پیدا کیے جائیں اور عہدے عدل و قسط کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ لی جائے تو ماسوا چند کے سب کے سب لٹیرے، اپنے فرائض منصبی سے نابلد، خود غرض، متکبر اور مفادات کا حصول انسان کو حیوانیت کے درجے پر لے آتا ہے جب تک ایسے انسان نما حیوانوں کو اچھوت قرار نہیں دیا جاتا ہم ایک باوقار، معتبر، بے غرض، مخلص قوم نہیں بن سکتے اور نہ ہی معاشرے سے انتشار کم یا ختم ہوسکتا ہے۔ کیا میں اپنی ذات سے پہل کرنے کے لیے تیار ہوں؟ جواب ضرور سوچیے گا قوم و ملک کے مفاد میں۔