والدین بچوں کی پیدائش پر کیا کریں؟

2700

اسلام نے ایک طرف تو بچوں کو خود ان کے ماں باپ کی طرف سے ہونے والے ظلم سے بچایا اور دوسری طرف بچوں کے بارے میں والدین کے صحیح اور فطری جذبات کی رعایت بھی کی ان کی پیدائش پر خوشی منانے کا شائستہ طریقہ سکھایا اور ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بہت ہی جامع اور مکمل ہدایات دیں ۔
نومولود کے کان میں اذان دی جائے
اسلام ایک خاص قسم کی تہذیب اور معاشرت وجود میں لاتا ہے ۔ کچھ خاص آداب و اطوار کی تعلیم دیتا ہے اور پورے ماحول کو ایک خاص رنگ عطا کرتا ہے ۔اس کا اہتمام وہ اسی وقت سے کرتا ہے جب کہ بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے ۔ چنانچہ اس نے اس بات کی تعلیم دی کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے ۔ حضرت ابو رافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کے نواسے حضرت حسن ؓ پیدا ہوئے تو آپ ؐ نے ان کے کان میں اذان دی ۔
اس وقت اذان دینے کے بہت سے مقاصد ہیں ۔ ایک مقصدیہ ہے کہ خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اور اس کی بڑائی بیان کی جائے۔ تیسرامقصد یہ ہے کہ اس طرح اس بات کا اعلان کیا جائے کہ بچہ کے ماں باپ بھی مومن و مسلم اور خدا کے فرماں بردار ہیں اور بچہ کو بھی وہ خدا کا مطیع و فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور چوتھا مقصد یہ ہے کہ بچہ کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ، رسول کی رسالت اور انسان کے بندہ ہونے کی آواز پہنچے کیا عجب کہ یہ آواز غیر شعوری طور پر بچہ کے دل و دماغ پر اثر اندازبھی ہوتی ہو۔
تحنیک کرائی جائے
اس موقع پر کسی نیک اور صالح انسان کے ذریعے تحنیک کرانا بھی سنت ہے ۔ تحنیک کا مطلب ہے چھوارا چبا کر اس کا لعاب یا شہد وغیرہ کی کوئی میٹھی چیز بچہ کو چٹائی جائے تاکہ بچہ کے پیٹ میں پہلی جو غذا پہنچے و ہ کسی خدا ترس اور متقی انسان کے ہاتھ سے پہنچے اور اس کی دعائیں اسے حاصل ہوں ۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ کی ؒخدمت میں بچوں کو لایا جاتا تھا ۔ آپ ٔ ان کے لیے برکت کی دعا کرتے اور تحنیک فرماتے ۔ ( مسلم ، کتاب الادب ، باب استحجاب ، تحنیک المولود)
اچھا نام رکھا جائے
حکم ہے کہ بچہ کا اچھا سا نام رکھا جائے ، تاکہ اس کا بہتر تعارف ہو ۔ بے ڈھنگ یا بے معنی نام رکھنا پسندیدہ نہیں ہے ۔ حضرت ابو دردأ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’ قیامت کے روز تمہیں تمہارے ناموں سے اور تمہارے باپوں کے ناموں سے بلایا جائے گا لہٰذا اپنے ( اور اپنی اولاد وغیرہ کے ) اچھے نام رکھو۔‘‘
اس سلسلے میںبعض متعین رہنمائیاں بھی کی گئی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ پیغمبروں اور خدا کے نیک بندوں کے نام پر نام رکھنے چاہئیں ۔ سب سے اچھے نام وہ ہیں جن سے بندگی اور عبدیت کا اظہار ہو ۔ ایسے نام بھی رکھے جا سکتے ہیں جن سے پیشہ ارو محنت کا اظہار ہو ۔ ایسے ناموں سے احتراز کرنا چاہیے جن کے معنی و مفہوم دینی لحاظ سے غلط ہو ۔ ابو وہب حبشی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا
’’پیغمبروں کے نام پرنام رکھو۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں اور سب سے زیادہ سچے اور واقعہ کے مطابق نام حارث( کسان) ہمام( ارادے والا) ہے ۔ سب سے برے نام حرب (جنگ) مرہ(تلخ) ہیں‘‘۔