عوام کی جیب سے سندھ بینک کے لیے پیکیج

566

حکومت سندھ نے سندھ بینک کو دیوالا ہونے سے بچانے کے لیے پونے پندرہ ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکیج دیا ہے ۔ جس وقت ملک کے سارے بینک ریکارڈ منافع کمارہے تھے ، اس وقت سندھ حکومت کی زیر نگرانی چلنے والا سندھ بینک خسارے کا اتنا زیادہ شکار تھا کہ اگر اسے بیل آؤٹ پیکیج نہ دیا جاتا تو بینک کو دیوالیہ قرار دے کر بند کرنا پڑتا ۔ سندھ بینک اُس وقت خسارے کا شکار ہوا جب اس کے پاس کھربوں روپے کے سندھ حکومت کے فنڈز موجود تھے ، سندھ میں تمام سرکاری اداروں کے ملازمین کو اسی بینک سے تنخواہ دی جاتی ہے اور تمام ہی سرکاری ملازمین کے اس میں اکاؤنٹ موجود ہیں ۔ اس کے باوجود سندھ بینک خسارے میں گیا جس کی واحد وجہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ۔ پیپلز پارٹی کے وزرائے اعلیٰ نے پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی فرنٹ کمپنیوں کی دل کھول کر فنانسنگ کی ، جو کبھی بھی وصول نہ کی جاسکی اور انہیں معاف کردیا گیا ۔ اسی طرح سندھ بینک پر منی لانڈرنگ کے بھی الزامات ہیں ۔ جب پانی سر سے گزر گیاتو نیب نے سندھ بینک کے حالیہ اور سابقہ سربراہان کو تحقیقات کے لیے گرفتار کیا ہے ۔ چونکہ سندھ میں ابھی تک پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ، اس لیے صوبائی کابینہ نے خاموشی سے سندھ بینک کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کی تو منظوری دے دی مگر بینک کے خسارے میں جانے کی وجہ جاننے اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے کمیٹی بنانے کی منظوری نہیں دی ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور ان کی کچن کیبنٹ نے پونے پندرہ ارب روپے سندھ بینک کو اپنی جیب سے دینے کی منظوری نہیں دی ہے ، یہ وہ رقم ہے جو پورے پاکستان کے ٹیکس ادا کرنے والوں کی جیب سے نکال کر زرداری صاحب کی جیب میں ڈالے جائیں گے ۔ یہ وہ رقم ہے جو سندھ میں ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں کی جائے گی اور سندھ کے عوام اسی طرح صحت ،صفائی اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم رہیں گے ۔ ان پونے پندرہ ارب روپے کی فراہمی کے لیے سندھ کے عوام پر اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔ ان پونے پندرہ ارب روپے کی فراہمی کس طرح کی جائے گی ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کی بلدیہ عظمیٰ اور ضلعی بلدیات کو دی جانے والی گرانٹ میں کمی کردی ہے جس کی وجہ سے بلدیات شدید بحران کا شکار ہوگئی ہیں ۔ کراچی میں بلدیاتی نظام پہلے ہی ناکارہ ہے ۔ عملی طور پر کراچی سیوریج کے پانی میں ڈوب چکا ہے اور کچرے کے ڈھیر میں دفن ہوگیا ہے ۔ جو تھوڑا بہت کام ہورہا تھا ، اب وہ بھی تنخواہوں میں تاخیر کا بہانہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکے گا ۔ مالی بحران کی وجہ سے کراچی کی بلدیات نہ تو اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں ادا کرپارہی ہیں اور نہ ہی ریٹائر ہونے والے ملازمین کو گزشتہ دو برس سے ان کے واجبات کی ادائیگی کی گئی ہے ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کا یہ تیسرا مسلسل دور حکومت ہے اور اسے پورے ملک میں بدترین صوبائی حکومت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ صوبے میں کرپشن کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کے آڈیٹر جنرل نے گزشتہ مالی سال کے لیے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں 13 ارب روپے پنشن کی مد میں اور 88 لاکھ ڈالر عالمی بینک کی جانب سے دی جانے والی امداد میں خوردبرد کرنے کا انکشاف کیا ہے ۔ یہ تو محض ایک شعبے میں خورد برد کی جانے والی رقم ہے ۔ سندھ میں ہر شعبے میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں ۔ اگر سندھ حکومت میں حکومت کی زیر نگرانی کی جانے والی اس منظم کرپشن پر قابو پالیا جائے تو سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کو بے مثال ترقی دی جاسکتی ہے ۔ سندھ کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں پر کبھی بھی حقیقی جمہوریت نہیں رہی ہے ۔ پورا دیہی سندھ الیکٹیبلز کے رحم و کرم پر ہے تو شہری علاقوں کو اسپانسرڈ دہشت گردوں کے حوالے کردیا گیا تھا ۔ گزشتہ انتخابات میں بھی سندھ میں الیکشن کے بجائے سلیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں سندھ کے عوام پر وہی لوگ مسلط ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سندھ میں نسل در نسل کرپشن میں ملوث ہیں ۔ پیپلزپارٹی کا گڑھ کہے جانے والے لاڑکانہ کے بلدیاتی فنڈز میں آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور پر 90 ارب روپے کی خورد برد کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ لاڑکانہ کی گلیوں میں بہتا سیوریج کا پانی اور سڑکو ں پر اڑتی دھول ، پیپلزپارٹی کی قیادت کی کرپشن کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے ۔ سندھ بینک کو دیا جانے والا بیل آؤٹ پیکیج کوئی مذاق نہیں ہے ۔ اس پر اسٹیٹ بینک سے بھی سوال ہونا چاہیے ۔ اسٹیٹ بینک ملک میں تمام بینکوں کا ریگولیٹر ہے اور تمام ہی بینک اس امر کے ذمہ دار ہیں کہ وہ دیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات اسٹیٹ بینک کو فراہم کریں ۔ جب زرداری کی فرنٹ کمپنیوں کو پہلا جعلی قرضہ جاری کیا گیا تو اسی وقت اسٹیٹ بینک نے کیوں معاملے کو نہیں بھانپا اور بینک انتظامیہ کے خلاف راست اقدامات کیوں نہیں کیے ۔ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اسٹیٹ بینک کا عملہ بھی اس کرپشن میں ملوث ہے یا پھر اسٹیٹ بینک نااہل ہے اور ملک میں بینکاری نظام کی دیکھ بھال سے قاصر ہے ۔ اس پر اسٹیٹ بینک کی بھی گرفت ہونی چاہیے اور سندھ بینک کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکیج کی رقم اومنی گروپ سے مع جرمانہ وصول کی جانی چاہیے ۔