پاکستان میںٹرینوں کے حادثات تو معمول تھے ہی لیکن جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی اور وزارت ریلوے شیخ رشید کے پاس آئی ہے حالات مزید خراب ہورہے ہیں۔ بدھ جمعرات کی درمیانی شب رحیم یار خان کے قریب اکبر بگٹی ایکسپریس ولہار اسٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں 25افراد جاں بحق اور 100سے زاید زخمی ہوئے۔ ٹرین کا انجن اور سات بوگیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ پھر وہ سب کچھ وہاں ہوا جو ایسے حادثات کے موقع پر ہوتا ہے یعنی اندھیرا، مشینری کی عدم موجودگی، ایمبولینسوں کی عدم دستیابی، اسپتالوں میں سہولتیں نہ ہونا وغیرہ۔ اگر حادثات کے حوالے سے ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ شیخ رشید صاحب کے وزارت سنبھالنے کے بعد سے 79واں حادثہ ہے۔ جبکہ صرف جون میں 21واں حادثہ ہے۔ ان حادثات میں سیکڑوں انسانی جانیں بھی گئیں اور ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔ حادثات ہوتے رہتے ہیںاس کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ریلوے کے ہر حادثے پر خواجہ سعد رفیق کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان کی درجنوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ بڑے دبدبے سے مہذب اور جمہوری ملکوں کا حوالہ دے کر کہتے تھے کہ دنیا میں ہر جمہوری ملک میں ایسے حادثے ہوتے ہیں تو فوری طور پر منسٹر استعفیٰ دیتا ہے، لیکن ان کے وزیر ریلوے کے دور میں جتنے بھی حادثات ہوئے عمران خان نے کسی حادثے پر شیخ رشید سے استعفیٰ کامطالبہ نہیں کیا۔ عمران خان کے نظریے اور خیال کے مطابق پاکستان اب مہذب اور جمہوری ملک نہیں رہا۔ کیوں کہ ان کے مقبول مہذب اور جمہوری ملک میںوزیر ریلویز سب سے پہلے استعفیٰ دیتا ہے۔ ان کے وزیر نے تو 79 حادثوں کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وزیر ریلویز بھی حادثے پراپنا دفاع کرتے رہے اور سارا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈالنے کی کوشش کی کہ ان کی نا اہلی کی وجہ سے نا اہل عملہ مسلط ہے جبکہ شکایت تو موجودہ حکومت اور وزیروں سے ہے کہ انہوں نے نا اہل لوگوںکو افسر بنا رکھا ہے۔ سینئر افسران ترقی کے منتظر ہیں اور جونیئر افسر کو منظور نظر ہونے کے سبب اعلیٰ منصب دے دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر وزیر موجود ہوگا تو اس کے ماتحت افسران تحقیقات آزادی سے نہیں کرسکیں گے جب آزادانہ تحقیقات نہیںہوگی تو نتائج بھی درست نہیں نکلیں گے۔ لیپا پوتی کر کے رپورٹ جمع کرادی جائے گی۔ اس حادثے میں بھی بظاہر کانٹے والے کی غلطی ہے لیکن اس کی تحقیق کون کرے گا کہ کانٹا تبدیل کر کے ٹرین کھڑی کروانے کے بعد کانٹا واپس کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ شیخ رشید صاحب بھی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور ان سے قبل بھی جو وزیر تھے خواجہ سعد رفیق ان کے دور میںبھی حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی زبان اتنی طویل اور تیز نہیں تھی جتنی شیخ رشید صاحب کی ہے۔ سعد رفیق کے دور میں کچھ بہتری بھی آئی تھی۔ شیخ صاحب ٹرینوں کا افتتاح کروا کر تعداد تو بڑھا رہے ہیں لیکن ٹرینوں کے اوقات کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ کسی ٹرین کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ تو بہرصورت وقت پر چلے گی یا پہنچے گی۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر کانٹوں، سگنلوں اور پٹریوں کے خالی ہونے اور اسٹیشن کے کون سے پلیٹ فارم پر کون سی گاڑی کھڑی ہے اس کا نظام کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جاسکتا تو پھر وزارت ریلویز کا کیا فائدہ۔ شیخ صاحب ،زبان سے ٹرینیں نہیں چلتیں کام کرنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ اعلان بھی کردینا چاہئے کہ پاکستان میں ایسے حادثات پر وزیروں سے استعفیٰ مانگنے کی روایت ختم کردی گئی ہے اور جو مطالبات پہلے کیے تھے وہ بھی غلط تھے۔ ویسے تو دیگر ٹریفک حادثات میں ایک ہی دن میں21 افراد ہلاک ہوئے ہیںتو کیا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سربراہ یا وزیر ٹرانسپورٹ سے بھی استعفیٰ کا مطالبہ کیا جائے؟