چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک اور وزیر اعظم

433

چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کے لیے حاصل بزنجو کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ صادق سنجرانی کی مخالفت کرنے اور انہیں ہٹانے کی مہم میں مسلم لیگ ن کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی سرگرم ہے۔ حالاں کہ پیپلز پارٹی ہی نے اپنے وفادار ساتھی رضا ربانی کے مقابلے میں صادق سنجرانی کاساتھ دیا تھا جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں تھا۔ لیکن چند ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی صادق سنجرانی کو ہٹانے پرتل گئی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ صادق سنجرانی نے اس مختصر عرصے میں سینیٹ کے اجلاس بخیر و خوبی چلائے اور کسی قسم کی جانبداری کا ارتکاب نہیں کیا۔ سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد بہت کم ہے اور اکثریت مسلم لیگ ن کے پاس ہے ۔ تاہم میاں نوازشریف نے اپنے کسی سینیٹر کا نام تجویز کرنے کے بجائے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سرکردہ قوم پرست رہنما حاصل بزنجو کے نام پر اتفاق کیا ہے۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کسی بلوچ رہنما کو ہونا چاہیے تاکہ بلوچوں میں مبینہ احساس محروم کم کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کوئی بھی بلوچوں اور بلوچستان کی محرومیوں کے نام پر منفی تاثرات کو فروغ دینے کی کوشش کرسکتا تھا۔ دوسری طرف وزیر اعظم کا تعلق پنجاب اور صدر کا تعلق اردو بولنے والوں سے ہے۔ چنانچہ چیئرمین سینیٹ پنجاب اور سندھ کے سوا کسی اور صوبے سے ہونا چاہیے خواہ وہ صادق سنجرانی ہوں یا حاصل بزنجو۔ صدر کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام ہوتا ہے۔ جہاں تک نمبر گیم کا تعلق ہے تو حزب اختلاف کے پاس بہت واضح اکثریت ہے جس کے پیش نظر تحریک عدم اعتماد آسانی سے کامیاب ہوسکتی ہے مگر چوں کہ رائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوگی اس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ گو کہ یہ ایک جمہوری عمل ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ غیر جمہوری ہتھکنڈے بڑے پیمانے پر استعمال کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان غیر ضروری طور پر میدان میںکود پڑے ہیں اور گزشتہ جمعرات کو صادق سنجرانی سے ملاقات میں انہیں ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دیں گے۔ سینیٹ میں خود پاکستان تحریک انصاف کے پاس محض چند ووٹ ہیں۔ چنانچہ اگر وزیر اعظم تحریک کامیاب بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ خرید و فروخت بڑے پیمانے پر ہوگی۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ سینیٹروں کو خرید لیا جائے۔ پرانے سیاست دان سینیٹر انور بیگ ایک ٹی وی چینل پر کھل کر کہہ چکے ہیں کہ سینیٹر آسانی سے بک جاتے ہیں، کروڑوں میں بولی لگتی ہے۔ وہ چونکہ خود سینیٹر ہیں اس لیے اندر کی باتیں خوب جانتے ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں کہ جو بھی کروڑوں روپے لگا کر پارلیمان کی نشست حاصل کرتا ہے وہ اس سے دگنی قیمت پر بک سکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد اسی طرح ناکام بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر یہ جمہوری عمل ہے تو عمران خان کو جمہوری روایت کا پاس کرتے ہوئے کھل کر صادق سنجرانی کی پیٹھ نہیں تھپکنی چاہیے تھی۔ فرض کریں اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو وزیر اعظم پاکستان کا وقار مزید مجروح ہوگا جو کئی جراحتوںکا شکار ہے۔ عمران خان کو کچھ کرنا تھا تو خاموشی سے کرڈالتے یا جہانگیر ترین کو کام پر لگا دیتے جن کو ایسے کاموں کا وسیع تجربہ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا صرف ایک مقصد نظر آتا ہے کہ حکومت وقت کو کسی میدان میں شکست دی جائے۔ حکومت نے حزب اختلاف کے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود بڑی آسانی سے بجٹ پاس کروالیا اور عوام پرآئی ایم ایف کو مسلط بھی کردیا۔ اب سینیٹ کا محاذ ہی بچا ہے جو اس لیے زیادہ اہم ہے قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا ہر بل توثیق کے لیے سینیٹ میں آتا ہے، یہاں رکاوٹیں ڈالی جاسکتی ہیں ۔