رانا ثنا اللہ کی گرفتاری… چند نئے سوالات و خدشات

437

یکم جولائی 2019ء کو نواز لیگ کے صوبائی صدر ایم این اے رانا ثنا اللہ کو فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے انسداد منشیات فورس پنجاب نے ان کی گاڑی کو روک کر تلاشی لی اور پھر رانا ثنا کو گرفتار کرلیا گیا۔ اینٹی نارکوٹکس ذرائع کے مطابق ان کی گاڑی سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے جس کی مالیت 15 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ فرد جرم عائد ہوجانے کے بعد رانا صاحب کا مقدمہ عدالت کے حوالے ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اللہ پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے ثابت ہوجانے پر عمر قید یا سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔
رانا ثنا اللہ پنجاب کے سابق صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ 2008ء سے 2018ء تک وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دست راست بھی رہے ہیں۔ آپ شریف خاندان کے دوست اور ایک باہمت لیڈر تصور کیے جاتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا بھی ان پر الزام ہے۔ مذکورہ سانحہ میں تحریک منہاج القرآن کے 14 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جب کہ رانا صاحب پر کالعدم مذہبی تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کی بھی خبریں ہیں۔ علاوہ ازیں رانا ثنا اللہ کے مقدمے اور گرفتاری کے حوالے سے اہم خبر یہ بھی ہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی صاحبزادی سارا تاثیر نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’رانا ثنا اللہ پر اپنے والد کے قتل کی منصوبہ بندی کا شک ہے۔ بدمعاشی سے لے کر قتل تک رانا ثنا اللہ سے گھٹیا زندگی کی کوئی شکل نہیں ہوسکتی۔ بتا نہیں سکتی کہ کتنی خوش ہوں، خدا عمران خان کی حکومت کو سلامت رکھے‘‘۔ سارا تاثیر کے حوالے سے یہ میڈیا رپورٹ 4 جولائی 2019ء کے ’’جسارت‘‘ میں موجود ہے۔
سارا تاثیر کے ٹویٹ کے بعد رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کی سازش میں ممکنہ طور پر ملوث کئی دیگر چہرے اور طبقات بھی نظر آنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گستاخانِ رسول کا ’’قادیانی نیٹ ورک‘‘ بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ عاشق رسولؐ ممتاز قادری کی پھانسی، ملعونہ آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے رہائی اور بیرونی دبائو پر بحفاظت بیرون ملک روانگی کے بعد اب رانا ثنا اللہ کو گستاخ سلمان تاثیر کے قتل میں گھسیٹنے کا مطلب صاف نظر آرہا ہے کہ رانا ثنا اللہ کو بھی گھما پھرا کر پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جائے۔ ’’قادیانی لابی‘‘ اپنے مخالفین کا کام تمام کرنا چاہتی ہے، خواہ الزام یا مقدمہ منشیات کا ہو یا کوئی دوسرا ہر صورت سزا ہونی چاہیے ویسے وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں یہود، ہنود اور نصاریٰ کے ایجنڈے پر عمل کرنا زیادہ آسان ہے اسی لیے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی صاحبزادی سارا تاثیر نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔
5 جولائی 2019ء کے اخبارات میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس (ANF) میجر جنرل عارف ملک کی ایک مشترکہ پزریس کانفرنس شائع ہوئی جس میں وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ قانون سے کوئی بالا نہیں، رانا ثنا اللہ کی گرفتاری میں منشیات کے ثبوت موجود ہیں جو میڈیا کو نہیں دے سکتے، عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔ ’’ANF‘‘ والوں نے اِس سال 1200 منشیات فروشوں کو پکڑا لیکن کسی کے بارے میں کسی نے کوئی آواز نہیں اُٹھائی، رانا ثنا اللہ کی گرفتاری پر شور مچانے والے 1200 گرفتاریوں پر کیوں خاموش رہے‘‘۔
رانا ثنا اللہ کی گرفتاری جن الزامات کے تحت ہوئی ہے اُن کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے، حکومت رانا ثنا اللہ پر مزید کون کون سے مقدمات قائم کرنے کے ارادہ رکھتی ہے، حکومت کا کام ہے، رانا ثنا اللہ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے انہیں قانونی مدد فراہم کرنا اور سیاسی جدوجہد کرنا مسلم لیگ (ن) کا کام ہے، ہم رانا ثنا اللہ کی کسی بھی حوالے سے مدد کرنے کے ذمے دار نہیں البتہ ایک انصاف پسند شہری کی حیثیت سے ہماری یہ ذمے داری ضرور ہے کہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری سے جھوٹے مقدمات اور آمرانہ ہتھکنڈوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اُسے اپنے قلم سے بے نقاب اور روکنے کی کوشش کریں، عوام کو حقائق سے آگاہ کریں اور حکومت کی بدنیتی پر مبنی کارروائیوں کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی اصلاح اور رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں تا کہ اہل وطن کو ہر طرح کے دھوکے اور ظلم سے محفوظ رکھا جاسکے۔
منشیات کے اسمگلرز کو گرفتار کرنا بہت اچھی اور ضروری بات ہے۔ منشیات زہر قاتل ہے اس کے اسمگلرز اور سہولت کاروں کے لیے عمر قید اور سزائے موت کا قانون بالکل درست ہے تاہم اس قانون کا استعمال شفاف ہونا چاہیے انتقام نہیں، جب کہ پنجاب کے سابق وزیر اور موجودہ ایم این اے رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت کے حوالے سے چند اہم سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ مثلاً پنجاب میں منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ کا ’’گیٹ وے‘‘ وزیراعظم عمران خان کا اپنا ضلع ’’میانوالی‘‘ ہے کہ جہاں منشیات اور غیر قانونی اسلحہ کو وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے لا کر دریائے سندھ کو عبور کرتے ہوئے میانوالی کی حدود میں پہنچایا اور Dump کیا جاتا ہے اور بعدازاں وہاں سے پورے پنجاب میں سپلائی ہوتی ہے۔ اِسی طرح سے ہیروئن اور چرس تیار کرنے والی تمام فیکٹریاں وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی کے اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں ہیں، جب کہ بلوچستان سے سندھ اور دیگر صوبوں تک ایرانی تیل، غیر قانونی اسلحہ اور منشیات لے جانے والا ’’مافیا‘‘ جو راستے استعمال کرتا ہے وہ حب چوکی کراچی اور جیکب آباد سے گزرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان سے سندھ میں داخل ہونے والے پہلے ضلع و شہر جیکب آباد کے بائی پاس پر پولیس، رینجرز اور لینڈ کسٹم کی چیک پوسٹ اور چوکیاں موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہر طرح کی غیر قانونی اسمگلنگ جاری ہے جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ بھاری رشوت اپنا کام دکھا رہی ہے اگر ایسا ہوتا رہا تو ملک کے داخلی امن کو کس قدر نقصان اور دہشت گردوں کو کس طرح سے مالی سپورٹ ملتی رہے گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حیرت اس بات پر بھی ہے کہ رانا ثنا اللہ جیسے ایک معروف سیاستدان کو تو ہیروئن رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا مگر صوبہ خیبرپختونخوا، میانوالی، حب اور جیکب آباد وغیرہ سے تیل، اسلحہ اور منشیات کے کسی اسمگلر کو گرفتار نہ کیا جاسکا۔ وزیر مملکت شہریار آفریدی اور ’’ANF‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عارف ملک نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ جو کہا ہے کہ ’’ANF‘‘ نے اس 1200 منشیات فروشوں کو پکڑا ہے لیکن ان کے بارے میں کسی نے کوئی آواز نہیں اُٹھائی، رانا ثنا اللہ کی گرفتاری پر اتنا شور شرابا کیوں؟۔ تو جناب والا اس پر گزارش یہ ہے کہ ان 1200 ملزمان میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا بتادیں کہ جس کی کوئی سماجی حیثیت یا سیاسی تعارف ہو۔ سابق ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر رہا ہو یا یہ کہ کسی بڑی سیاسی جماعت کا صوبائی صدر ہو۔ آپ نے جن 1200 افراد کو گرفتار کیا ہے وہ عام لوگ جن میں سے کچھ تو واقعی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہوں گے اور زیادہ تر وہ بے گناہ ہوں گے جن کو جھوٹے الزامات کے تحت محض اس لیے گرفتار کرکے چالان کردیا گیا ہوگا کہ اس طرح سے بڑے اسمگلرز جو حقیقی مجرم ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے۔ بہرحال ہم رانا ثنا اللہ کے وکیل یا دوست نہیں تاہم حق کی گواہی اور انصاف کا ساتھ دینا ہمارا فرض ہے جب کہ سارا تاثیر کے ٹویٹ کے بعد نئے سوالات اور خدشات بھی جنم لے رہے ہیں اور وہ یہ کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’قادیانی نیٹ ورک‘‘ بھی رانا ثنا اللہ کو نشان عبرت بنانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے ’’دینی قیادت‘‘ کو بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ رانا ثنا اللہ کے کیس میں کوئی ناانصافی نہ ہونے پائے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق و انصاف پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔