کپتان کی جماہی اور اسلامی تعلیمات

610

محمد مظفر الحق فاروقی
ان دنوں پاکستان میں دو کپتانوں کو شہرت حاصل ہے۔ عمران خان جن کے سر پر دہری کپتانی کا سہرا ہے اور دوسرے سرفراز احمد جن کو پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا اعزاز حاصل ہے جو عالمی کرکٹ کپ 2019ء میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ جو اب قدرے معقول کارکردگی کے بعد واپس آچکے ہیں۔ سرفراز صاحب کی کپتانی اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا اور یہ سلسلہ جیسا کہ ہماری عادت ہے ایک طویل عرصہ تک جاری رہے گا۔ عمران خان پاکستان کے ڈبل کپتان اس طرح ہیں کہ وہ اس وقت وزیراعظم اور ملک انتظامی سربراہ ہیں۔ عمران خان کی کپتانی کی اصل شہرت کرکٹ کی کپتانی سے شروع ہوئی اور اس وقت عروج پر پہنچی جو آج تک قائم ہے جب ان کی کپتانی میں آج سے 27 سال پہلے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ عمران خان نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ 1992ء میں میری کپتانی میں پاکستان کرکٹ کا عالمی چمپئن بنا۔ کاش وزیراعظم کی حیثیت میں ملک کی کپتانی کے دوران پاکستان دوبارہ کرکٹ کا عالمی چمپئن بن جائے تو یہ بھی تاریخی واقعہ ہوگا جو افسوس نہ ہو پایا۔ 30 مئی سے 14 جولائی تک جاری رہنے والے کرکٹ کے اس عالمی مقابلہ کے سب سے اہم مقابلہ 16 جون 2019ء کو پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان ہوا۔ برصغیر پاک و ہند کے تقریباً 50 کروڑ لوگوں نے یہ میچ دیکھا۔ پاکستان یہ میچ جیت نہ سکا اور جیسا کہ امید تھی اور ہمیشہ ہی سے ہوتا آیا ہے بھارت سے ہارنے کے بعد ہم سب غم کے سمندر میں ڈوب گئے۔ تنقید اور تبصروں کی زد میں آگئے۔ کوئی کھلاڑی یا ٹیم جان بوجھ کر خراب نہیں کھیلتی، مگر ہمارا یہ قومی کردار ہے کہ اگر ہمارے کھلاڑی جیت جائیں تو شاہین کہلاتے ہیں اور ہارنے کی صورت میں دھول چاٹتے نظر آتے ہیں۔ ہر طرف خامیاں اور خرابیاں ہی نظر آتی ہیں۔ کچھ کھلاڑی ایک شیشہ کلب میں کیا چلے گئے کہ مصیبت کھڑی ہوگئی۔ کپتان سرفراز احمد نے وکٹ کے عقب میں جماہی کیا لے لی کہ تنقید کی زد میں آگئے۔ اگر یہی کھلاڑی انڈیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے تو وہ ایک رات پہلے کسی ڈانسنگ کلب میں بیٹھے ہوتے تو ہماری قوم اس قصور کو بالکل معاف کردیتی۔
کپتان سرفراز کو وکٹ کے پیچھے جماہی آگئی۔ اگر پاکستان انڈیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا تو کپتان کی اس جماہی کا ذکر تک نہ ہوتا، ہار جانے کی صورت میں اور وہ بھی انڈیا سے۔ یہ جماہی شہرت حاصل کرگئی۔ دو زاویوں سے بار بار کپتان کو جماہی لیتے ہوئے دکھایا گیا اور تبصرہ یہ کیا گیا کہ جماہی سستی کی علامت ہوتی ہے۔ جماہی نیند کے پورا نہ ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ کپتان اور کھلاڑی شیشہ کلب میں رات دیر تک بیٹھے رہے اپنی نیند پوری نہیں کی تو ظاہر ہے ہاریں گے نہیں تو کیا جیتیں گے۔ کاش کپتان سرفراز احمد صاحب اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوتے تو اپنی جماہی کی وجہ سے بدنامی کا سبب نہ بنتے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے جب جماہی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ جب کہ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ جب جماہی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے اس لیے کہ کھلے ہوئے منہ میں شیطان داخل ہوجاتا ہے۔ کپتان سرفراز صاحب جماہی آنے کے بعد اپنے ہاتھ کو اپنے منہ پر اگر رکھ لیتے تو دنیا کو پتا نہ چلتا کہ کھیل کے دوران انہوں نے جماہی لی اور سستی اور نیند کا مظاہرہ کیا۔ کپتان صاحب تو جب بھی بات کرتے ہیں اور منہ کھلوتے ہیں تو ہم ان کی زبان تک دیکھ لیتے ہیں۔ ان کے دہانہ کی بناوٹ ہی ماشاء اللہ ایسی ہے، دستانے پہن کر جماہی آنے پر منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تو اور بھی منہ چھپ جاتا۔ اسلام کو اگر مکمل نظام حیات کا درجہ حاصل ہے تو واقعی صحیح ہے یہ کامل دین صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی بات نہیں کرتا، زندگی کے ہر ہر پہلو پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ چھینک آنے اور جماہی لینے پر ایک مسلمان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے یہاں بھی واضح رہنمائی موجود ہے۔ ذکر کپتان کی جماہی کا چھڑا تو آئیے ان چھوٹے چھوٹے معاملات میں اسلام کیا کہتا ہے اس پر کچھ باتیں ہوجائیں۔ نبی کریمؐ کی ایک حدیث بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہے۔ جب وہ سلام کرے تو جواب دے، جب وہ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کی جائے، جب وہ مرے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو، جب چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے۔ (مفہوم حدیث)
اس حدیث میں چھینک کا ذکر آیا ہے۔ چھینک کو عربی زبان میں العطاس کہتے ہیں جب کہ جماہی کو التثائوب کہا جاتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ بے شک اللہ چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جماہی کو ناپسند۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں: ’’جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمدللہ کہے اور سننے والے کے ذمے ہے وہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے۔ یہ حدیث ابوسعید خذریؓ سے روایت ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو وہ اس کو روکے اگر وہ جماہی کو روک نہ سکے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے اس لیے کہ شیطان کھلے ہوئے منہ سے ہی داخل ہوجاتا ہے۔ (مفہوم) ایک حدیث کے مفہوم کی رُو سے جماہی کو شیطان کا عمل کہا گیا ہے۔ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ انبیائے کرام کو جماہی نہیں آتی تھی۔ جماہی غفلت، سستی، کاہلی کی وجہ سے آتی ہے اس لیے یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ جماہی سے متعلق رسول اللہؐ کے فرامینِ پاک کی رو سے جماہی شیطان کو خوش کرنے والا عمل ہے، اس لیے اس کو روکنے اور آجانے کے بعد لازماً منہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر جماہی آنے کے بعد کسی نے اپنے منہ پر ہاتھ نہ رکھا تو حدیث کی رو سے شیطان داخل ہوجائے گا۔ اس لیے جماہی آنے پر منہ پر ہاتھ رکھنا واجب کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ عمل سنت تو ہے ہی۔ بات کپتان سرفراز کی جماہی سے شروع ہوئی تھی۔ جماہی کی شرعی حیثیت ہر پڑھنے والے تک پہنچ گئی۔ کپتان سرفراز صاحب اب پاکستان آچکے ہیں۔ کاش وہ یہ کالم پڑھیں اور دوسرے بہت سے لوگ بھی اور سوچیں کہ چھینک اور جماہی سے مطلق ہم کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ واقعی ہمارا دین چھوٹی چھوٹی باتوں تک پر ہماری رہنمائی کرتا ہے کیوں کہ یہ ایک مذہب religionنہیں بلکہ دین ہے یعنی Way of Life۔