پشتو ادبی سیمینار، یادیں اور باتیں

740

جلال نور زئی
جمعہ پانچ جولائی کو کوئٹہ میں شروع ہونے والی سہ روزہ پشتو ادبی عالمی سیمینار میں شرکت کے لیے پشتو اکیڈمی کے کسی مہربان نے دعوت نامہ بھیجا۔ جس کے لیے بہت مشکور ہوں۔ پوری طرح شریک نہ ہوسکا کہ مصروفیت آڑے تھیں۔ البتہ دوسرے روز سہ پہر کی تپتی دھوپ میں عزیزم سعدا للہ اختر کی ہمراہی میں چند ساعت کے لیے پہنچ گیا۔ اس بار اہتمام پشتو اکیڈمی کی عمارت میں تھا، جو میکانگی روڈ پر واقع ہے۔ بجلی غائب تھی، ہال کے باہر جنریٹر شور کے ساتھ چل رہا تھا۔ اندر گئے تو حبس نے اپنا پورا اثر قائم کا رکھا تھا۔ گرمی کے باوجود تمام نشستیں پُر تھیں۔ خواتین بھی کچھ تعداد میں شریک تھیں۔ اسٹیج پر سرور سودائی اور افراسیاب خٹک جلوہ افروز تھے۔ اس قطار میں بیٹھے تیسرے شخص کو پہچان نہ سکا۔ بیٹھنے کو جگہ نہ تھی چناں چہ کچھ دیر کے لیے کھڑے رہے۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں افراسیاب خٹک کی مختصر گفتگو سن سکا۔ ایک جملہ یہ تھا کہ مذہب نے پشتونوں کا استحصال کیا ہے۔ افراسیاب خٹک ذہین شخص ہے۔ خود ساختہ جلا وطن رہے ہیں۔ خفی بندو بست میں بھی طاق سمجھے جاتے ہیں۔ حالیہ مخصوص رنگ دار ٹوپیوں والی تحریک کے موسّسین میں سے بتائے جاتے ہیں۔ سو مارے گرمی کے واپس باہر آگئے۔ کتابوں کے دو اسٹال لگے تھے۔ پشتو ادب، تاریخ اور شجرہ کے موضوع پر چند کتابیں خرید لیں۔ اسی اثناء وقفہ ہوا، شرکاء ہال سے نکل آئے، جن کے لیے سامنے شامیانے میں ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ کتابوں کی جگہ محمد جعفر ملا، بچپن کا دوست ہے۔ ایک مدت بعد ملاقات ہوئی، ہشاش بشاش تھے۔ محمد جعفر فٹبال کے بہت ہی اچھے کھلاڑی تھے۔ پشتو اکیڈمی سابقہ صادق شہید لائبریری کی عمارت کی جگہ تعمیر ہوئی ہے۔ کچھ زمین صادق کاسی شہید پار ک یعنی ’’مالی باغ‘‘ کی بھی شامل کی گئی ہے۔ پارک ہی کے وسیع قطعہ پر براہوی اکیڈمی، شال اکیڈمی اور آرکائیو اینڈ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی عمارت تعمیرکی گئی ہے۔ قیمتی درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ راہ چلتے ہند کے عظیم مسلم حکمران شیر شاہ سوری کی نظر کٹے پڑے درخت پر پڑی۔ غضبناک ہوئے، کہا اس درخت کا قاتل کون ہے۔ ہماری بد نصیبی ہے کہ شہر کوئٹہ میں درخت بے دریغ قتل ہو رہے ہیں۔
محمد جعفر کے والد علی محمد مالی باغ کی رکھوالی کرتے تھے۔ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ پارک کے اندر کھیلتے بچوں کے احساسات، جذبات اور خوشی کا خیال رکھتے۔ چاہے بچے کس قدر ہی اُدھم مچاتے۔ مجھے اسی کی دہائی کا ابتدائی زمانہ یاد ہے کہ مالی باغ کے مختلف حصوں میں غالباً چار یا پانچ فواروں سے اکثر پانی اُٹھتا۔ بہت ہی مسحو کن منظر ہوتا۔ پھوار سے طبیعت تازہ ہو جاتی۔ خوبصورت پھول، سبزہ، سرو اور دوسرے سایہ دار درختوں کے جُھنڈ میں دھوپ کی کرنیںتک نہ پڑتیں۔ سیمنٹ کے بنچ پورے پارک میں بنے ہوئے تھے۔ صبح سویرے لوگ چہل قدمی کرتے۔ شہری گرمی کے اوقات میں سستاتے۔ اب تو وسطی شہر کے اس واحد قدیم پارک کا بچا کُھچا حصہ بھی خرابے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک سرے میں یہ چار عمارتیں تعمیر ہوئیں، دوسرے سرے میں بھی سرکاری عمارتیں کھڑی کی گئیں۔ جانے کب کوئی حکومت اور زور آور باقی حصے پر بھی ہاتھ صاف کر جائے۔ پاس ٹیکنیکل ہائی اسکول کے بڑے رقبے پر مسجد تعمیر کی گئی۔ حالاںکہ دائیں بائیں چند میٹر کی دوری پر مساجد موجود ہیں۔ 2008ء کی حکومت میں محکمہ تعلیم کے ایک سیکرٹری نے اسکول کی زمین الاٹ کر دی تھی۔ مولانا عبد الواسع تب سینئر صوبائی وزیر تھے۔ غرض اس مختصر لمحہ ذہن میں ماضی کے کئی دریچے کھل گئے۔ پاس اسلامیہ اسکول ابتداء سے میٹرک تک ہماری درس گاہ تھی۔ گویا بہت ہی مزہ آیا۔ کاش پشتو ادبی عالمی سیمینار کی نشستوں سے بھی مستفید ہوتا۔
بلا شبہ علمی و تحقیقی مجالس و نشستیں جمود طاری ہونے نہیں دیتیں۔ نئے خیالات، نئی تحقیقات اور مکالمے کی بنیاد پڑتی ہے۔ فکر و خیال کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔ علم و ادب کے اس گہوارے اور اس سے جڑے لوگوں پر یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس نوع کی علمی نشستیں کسی سیاسی جماعت ومکتبہ فکر کے لیے مخصوص نہ کریں۔ بغیر تخصیص کے پشتون معاشرے کے ادباء، دانشوروں، محققین و لکھاریوں کی شرکت یقینی بنانی چاہیے۔ علمی و فکری تحقیقات سے استفادے کے در کھلنے چاہئیں۔ تخصیص کے حاصل اچھے نہیں رہے ہیں۔ مذہب نے پشتون معاشرے کو جوڑے رکھا ہے۔ نابغہ روزگار پشتون دانشورکاکا صنوبر حسین مومند مرحوم نے کہا تھا، سچا پشتون سچا مسلمان ہوتا ہے۔ افغان تاریخ، قومی، ملی اور دینی و حدت و حمیت سے عبارت و مُزیّن ہے۔ ماضی قریب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خارجی لٹریچر، نظریات حتیٰ کہ ثقافتی و تمدنی نمونے پشتون معاشرے میں داخل کرنے کی جسارت اور کوششیں ہوئیں۔ اس ضمن میں بڑے بڑے ادیب، شاعر، مفکر اور قائدین اس کے لیے حمد و ثناء کہتے۔ خیر اس بحث میں اُلجھنا نہیں چاہتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نوشت و خواند کی یہ عمارت مشترک میراث ہے۔ جماعتی و گروہی اثر و نفوذ سے اس کی حیثیت و مرتبہ مشتبہ و متنازع بن جائے گی۔ اس نوع کی مجالس و نشستیں خلیج و افتراق کے بجائے وحدتِ قومی اور وحدتِ افکار کا ذریعہ ہونی چاہیے۔ پشتو اکیڈمی کی جانب سے عالمی ادبی سیمینار میں پیش ہونے والے مقا لے کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا عمل قابل ستائش ہے۔ سیمینارکے کامیاب انعقاد پر اکیڈمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔