ملک کے پہلے وزیراعظم کی شہادت کے بعد
۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہادت کے بعد‘ ملک غلام محمد گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم محمد علی جناح کے دستِ راست تھے۔ جن کے انتقال کے بعد وہ انتہائی مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھے اور ہندوستان کی جارحیت اور مہاجرین کے مسائل سے کامیابی سے نبردآزما ہوئے۔ لیاقت نہرو معاہدہ کیا اور قوم کو حوصلہ دیا۔ ان کی شہادت پاکستان کی افسر شاہی‘ لادینی اور اشتراکی عناصر اور غیر ملکی سازش کا شاخسانہ تھی۔ ان کے قاتل کو فوراً گولی مارکر ہلاک کردیا گیا اور قتل کی تحقیقات کے اہم شواہد کی دستاویز لے جانے والے جہاز کو گرادیا گیا جس میں نوابزادہ اعتزاز از الدین، ایڈیشنل آئی جی پولیس مع اہم شواہد کے ہلاک ہوگئے۔
قرارداد مقاصد جس کو ۱۲؍ مارچ ۱۹۴۹ء کو پارلیمنٹ نے منظور کرکے آئین کا حصہ بنادیا تھا اور دستور ساز اسمبلی نے دستور کے بنیادی اصول مرتب کرنے کے لیے ایک مقرر کردہ کمیٹی کو یہ کام سونپا تھا‘ جس کی رپورٹ قرار داد مقاصد کے بالکل برعکس سیکولر دستوری خاکے پر مبنی تھی۔ یہ رپورٹ جمہوری اور وفاقی نقطہ نظر کے بھی منافی تھی جماعت اسلامی کی شوریٰ اور مولانا مودودیؒ نے اس رپورٹ پر نہایت مفصل مدلل اور بھرپور تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ پورے ملک میں اس کے خلاف نامنظوری کی قراردادوں‘ ٹیلی گراموں اور محضر ناموں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور حکومت کو مجبوراً اسے واپس لے کر خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی قائم کرنی پڑی۔ اس کمیٹی نے دستوری خاکے کے بارے میں اپنی رپورٹ دسمبر ۱۹۵۲ء میں پیش کی اس رپورٹ کے سامنے آنے پر ملک کے سیکولر عناصر جن کا حکومت پر کنٹرول اور غلبہ تھا‘ بوکھلاگئے اور انہوں نے اسلامی دستور کے مطالبے کے معاملے کو کھٹائی میں ڈالنے‘ توجہ ہٹانے اور پیش بندی کے لیے جماعت کے آٹھ نکاتی مطالبے کے مقابلے میں کچھ علماء کو آگے کرکے قادیانیوں کے خلاف ہنگامے شروع کروائے تاکہ عوام کا رخ دستوری مطالبے سے دوسری طرف موڑ دیا جائے۔ پنجاب کے شہروں اور خاص کر لاہور میں ایجی ٹیشن اور ڈائریکٹ ایکشن کے سبب فسادات اور قتل و غارت گری اتنی بڑھ گئی کہ لاہور کارپوریشن کی حدود میں مارشل لا لگادیا گیا۔ اس کی آڑ میں مولانا مودودی‘ جماعت اسلامی کے دیگر اکابرین اور کارکنوں کو دوبارہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے مختلف مقامات سے ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
قادیانی فتنہ۔ ایک مختصر تاریخ
برعظیم میں انگریزوں کے دور میں پنجاب کے ایک قصبے قادیان سے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں میں ایک اور اضافہ مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے ہوا۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے مرزا صاحب کو انگریزوں کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور وہ خود بھی انگریزوں کے مکمل وفادارتھے جو ا ن کی تحریروں اور تقریروں سے عیاں تھا۔
مرزا غلام احمد ۱۸۳۹ء میں قادیان میں ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا کا نام عطا محمد تھا۔ تاریخی تفصیلات سے علم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے بزرگوں نے مغلوں کے زوال کے وقت سکھوں اور پھر سکھوں کے زوال پر انگریزوں کا ساتھ دیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران اس کے خاندان نے انگریزوں کی بڑی خدمات انجام دیں۔ مرزا صاحب کے والد نے جنگ آزادی میں اپنی گرہ سے پچاس گھوڑے خرید کر اور پچاس جنگجو پہنچا کر انگریزوں کی اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کی تھی۔ غلام احمد کے بھائی غلام قادر‘ جنرل نکلسن کی فوج میں ملازم تھے۔ فارسی اور عربی بچپن میں گھر پر پڑھی‘ بعد میں منطق اور حکمت بھی پڑھی۔ ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ کی کچہری میں محرر کی حیثیت سے ملازمت کی اور ان مقدمات کو بھی دیکھا جو مرزا صاحب کے والد نے اپنے آبا واجداد کے دیہات واگزاری کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات دائر کررکھے تھے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ: میری عمر کا بیش تر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں اور میں نے ایسی کتابیں تمام عرب ممالک مصر و شام‘ کابل اور افریقا و روم تک پہنچادی ہیں۔
(جاری ہے)