تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ تاجروں نے عمران خان سے مایوس ہو کر سنیچر کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے ۔ جس دن بجٹ تجاویز کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ، اس دن سے پور املک مضطرب اوراس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ تاجر اور دیگر کاروباری حلقے اس گمان میں تھے کہ یہ ملک دشمن بجٹ آئی ایم ایف کے ایجنٹوں کا بنایا ہو اہے اور وہ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان سے بات کریں گے تو وزیر اعظم اس میں مناسب رد و بدل کی ہدایات جاری کریں گے اور یوں ملک کی گاڑی درست سمت میں چل پڑے گی ۔ تاجروں اور صنعتکاروں کی یہ خوش گمانی بدھ کو اس وقت دور ہوگئی جب وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے ایک روزہ دورے کے دوران گورنر ہاؤس میں تاجروں اور صنعتکاروں کے مختلف وفود سے ملاقات کے دوران دوٹوک انداز میں بجٹ تجاویز میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو مسترد کردیا ۔ جب سے عمران خان حکومت میں آئے ہیں ، اس دن سے ہی ملک کی معیشت پر برا وقت آیا ہوا ہے ۔ تاہم بجٹ سے چند ماہ قبل معاشی ٹیم میں جو تبدیلی لائی گئی اس نے ملک کی اقتصادیات میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ پہلے آئی ایم ایف کی فرمائشیں پوری کی جاتی تھیں ، اب آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازمین کو براہ راست تمام تر اختیارات دے دیے گئے ہیں کہ وہ جس شے پر جب چاہیں اور جتنا چاہیں ، ٹیکس عاید کردیں ۔ صرف یہی نہیں ہے بلکہ یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ جس سے جس طرح چاہیں ، اس طرح سے ٹیکس بھی وصول کریں ۔ ٹیکس عاید کرنا اور ٹیکس وصول کرنا کسی بھی حکومت کے بنیادی وظائف میں شامل ہیں ۔ٹیکس عاید کرنے اور وصول کرنے کے اختیارات کسی اور کو دینے کا مطلب واضح طور پر ملک کا اقتدار اس کے حوالے کردینا ہے ۔اب پاکستان میں مقتدر قوت پاکستانی ووٹوں سے منتخب حکومت نہیں رہی بلکہ آئی ایم ایف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اس ضمن میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے معذور ہیں ۔ فیصل آباد میں مکمل طور پر شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی ۔ اب ملک بھر کے تاجر اور صنعتکار سنیچر کے دن شٹر ڈاؤن ہڑتال کریں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں کسی فیکٹری اور کارخانے میں کوئی کام ہوگا اور نہ ہی کوئی قابل ذکر مارکیٹ کھلے گی ۔ تاجروں اور صنعتکاروں کی اس شٹر ڈاؤن ہڑتال کو پاکستانی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی تاجروں اور صنعتکاروں کی مذکورہ ہڑتال کی حمایت اور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ چونکہ عمرانی حکومت کے ہاتھ میں کوئی بھی معاشی فیصلہ نہیں رہا اس لیے اندیشہ ہے کہ اس ہڑتال کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ اگر حکومت نے تاجروں اور صنعتکاروں کے مطالبے پر غور نہیں کیا اور آئی ایم ایف کے گماشتوں کی ہدایت پر ڈٹے رہے تو یہ پرامن ہڑتال پرتشدد مظاہروں میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب پرامن احتجاج پر غور ہی نہ کیا جائے تو پھر عوام مشتعل ہوتے جاتے ہیں اور احتجاجی عوام کی قیادت بتدریج انتہا پسند وں کے ہاتھ میں آجاتی ہے جس کا نتیجہ ملک بھر میں پر تشدد ہنگاموں کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ہم عمران خان سے گزارش کریں گے کہ اس سے قبل کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں ، وہ عوام کے احتجاج پر کان دھریں اور آئی ایم ایف کے گماشتوں کو ملک سے چلتا کریں ۔ آئی ایم ایف کے یہ ہرکارے پہلے ہی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں ، اب یہ سلسلہ مزید جاری رہنے کا مطلب ملک میں انارکی اور پھر ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے ۔ عمران خان پر پہلے ہی سیلیکٹڈ وزیر اعظم کی پھبتی کسی جا رہی ہے ۔ اس لیے بھی دیگر اداروں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ ہم تاجروں اور صنتعکاروں کے نمائندوں سے بھی درخواست کریں گے کہ احتجاج کو پرامن ہی رکھا جائے اور ایسے عناصر سے خبردار رہا جائے جو پرامن احتجاج کو ہائی جیک کرکے اسے پرتشدد ہنگاموںمیں تبدیل کرنے کا فن جانتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان سے بھی ہم یہی درخواست کریں گے کہ وہ صرف اس بناء پر عمران خان کی پالیسیوں کی حمایت نہ کریں کہ وہ تحریک انصاف کے کارکن ہیں بلکہ وہ اس امر کو ملحوظ رکھیں کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے ۔