ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں وہ ’’گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ! ہم نے پوچھا ’’یہ گھڑمس کیا ہوتا ہے؟‘‘ بولے ’’جب بہت ساری باتیں ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ ہوجائیں، بیک وقت دھماکے ہونے لگیں، اتنا شور مچ جائے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے تو اس ماحول کو ’’گھڑمس‘‘ کہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست اس وقت ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایک طرف عمران حکومت نے انت مچا رکھی ہے، گرفتاریاں ہورہی ہیں، ایمنسٹی اسکیم ختم ہونے پر جائدادیں ضبط کی جارہی ہیں، مخالفین سے کہا جارہا ہے کہ اگر وہ رہائی چاہتے ہیں تو جیب ڈھیلی کریں اور پلی بارگین کے ذریعے لوٹا ہوا مال واپس کرکے لندن، دبئی یا جہاں جی چاہے چلے جائیں ورنہ جیل میں سڑتے رہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جیل میں اِن قیدیوں کے ساتھ وی آئی پی سلوک پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف اب گھر کا کھانا کھانے کے بجائے جیل کا کھانا کھائیں گے اور ہفتے میں صرف ایک مرتبہ ان کے قریبی عزیز ہی ان سے ملاقات کرسکیں گے۔ پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی، آصف زرداری کی ایک اور مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی ہے۔ رانا ثنا اللہ کا حال تو اور بھی بُرا ہے انہیں پندرہ کلو ہیروئن رکھنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے اور ان سے اخلاقی مجرموں کا سا سلوک ہورہا ہے۔ دوسری طرف عمران حکومت کے حریف بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، وہ بھی حکومت کے خلاف دھماکے پر دھماکا کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اگرچہ شہباز شریف ہیں لیکن مریم نواز نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے، اس وقت وہی پارٹی کی قیادت کررہی ہیں اور اپنی جارحانہ سیاست سے انہوں نے تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ انہوں نے العزیزیہ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا دینے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک پر الزام لگایا ہے کہ انہیں بلیک میل کرکے میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ لیا گیا ہے۔ مریم نواز نے اپنی دھماکا خیز پریس کانفرنس میں ارشد ملک کی آڈیو اور ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں وہ یہ اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ میاں نواز شریف بے قصور ہیں اور انہیں سزا دینے پر ان کا ضمیر انہیں ملامت کررہا ہے۔ ابھی اس دھماکے کی گونج باقی تھی کہ جج ارشد ملک نے ویڈیو کو جعلی اور بے بنیاد قرار دے کر جوابی دھماکا کردیا ہے۔ اِدھر مشیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ ارشد ملک سے منسوب ویڈیو اور آڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرایا جائے گا تا کہ حقیقت سامنے آسکے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے نہیں نمٹے گا۔ اس کہانی میں کئی موڑ آئیں گے اور ہر موڑ سسپنس سے بھرپور ہوگا۔ جس شخص نے یہ کہانی تخلیق کی ہے اور ارشد ملک کی آڈیو، ویڈیو کا اہتمام کیا ہے اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ قتل، اغوا اور زنا جیسے سنگین جرائم میں ماخوذ ایک چھٹا ہوا بدمعاش ہے اور پاکستان سے بیس سال تک مفرور رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب اس کے خلاف بھی مقدمات کھلیں گے اور کہانی نیا ٹرن لے لے گی۔ ویڈیو اور آڈیو کے فرانزک ٹیسٹ کی باتیں تو بہت ہورہی ہیں لیکن لوگوں کو شبہ ہے کہ شاید ایسا نہ ہو سکے اور معاملہ عدالت عظمیٰ کو ریفر کردیا جائے۔ بہرکیف یہ شریف فیملی اور عمران حکومت کے درمیان اعصاب کی جنگ بھی ہے۔ مریم نواز کو جلسے کی اجازت نہ دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت یہ اعصابی جنگ ہار رہی ہے اس پر بوکھلاہٹ طاری ہے اور اس کا فائدہ شریفوں کو پہنچ رہا ہے۔
دوسری طرف آصف زرداری نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک دھماکا کردیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت (مراد ہے عمران خان) کے خلاف لندن میں تحقیقات ہورہی ہے اور یہ معاملہ امریکا تک جاسکتا ہے۔ ان کا تعلق ایک ایسے شخص سے جوڑا گیا ہے جس نے جعلسازی کے ذریعے اربوں ڈالر کمائے ہیں اور انہیں بھی مالی فائدہ پہنچایا ہے۔ زرداری کا یہ انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہونے سے روک دیا گیا لیکن اس کا جتنا حصہ بھی آن ایئر گیا اس نے تھرتھلی مچادی ہے۔ تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ زرداری حکومت اور شریف فیملی کے درمیان محاذ آرائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور حکومت کو بھی اپنی ’’نیک چلنی‘‘ کا یقین دلارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر عمران حکومت اور شریف فیملی کے درمیان محاذ آرائی میں چپ سادھے ہوئے ہیں اور ’’تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے اصول پر عمل کررہے ہیں۔ اعتزاز احسن پہلے ہی زرداری کو شریفوں کے بارے میں خبردار کرچکے ہیں اور خود زرداری بھی شریفوں کی بیوفائی کا تلخ تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ شریفوں کو اپنی لڑائی تنہا لڑنا پڑے گی اور مولانا فضل الرحمن بھی ان کی کچھ مدد نہ کرپائیں گے۔ حکومت جس پر فی الحال بوکھلاہٹ چاری ہے، زرداری کی خاموش معاونت سے حالات پر قابو پانے میں کامیاب رہے گی لیکن اس ’’گھڑمس‘‘ میں عوام مارے جائیں گے۔ مہنگائی اور بیروزگاری ان کا جینا حرام کردے گی اور جماعت اسلامی کے سوا کوئی اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے والا نہ ہوگا۔ صرف جماعت اسلامی ہی عوام کی آواز بند کر میدان میں موجود ہے جب کہ باقی سب جماعتیں اپنے اپنے بچائو میں لگی ہوئی ہیں۔