وزیراعظم عمران خان سزا یافتہ لوگوں سے خوفزدہ ہیں۔ ان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سزا یافتہ شخص کا انٹرویو نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی میڈیا کوریج پر تشویش ہے، خان صاحب عموماً کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ ان کی بات اصولاً درست ہے کہ عدالتوں سے سزا یافتہ شخص کو ہیرو بنانا غلط ہے اور خصوصاً قومی دولت لوٹنے کے حوالے سے کسی پر مقدمات ہوں تو اس پر ضرور ایسی پابندی ہونی چاہیے۔ انہوں نے پیمرا کو تشویش سے آگاہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔ لیکن زرد میڈیا پر تو مجرموں کے بیانات روکیں۔ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آج جن لوگوں کو مجرم قرار دیا جائے کل وہ ہیرو بن جائیں۔ لیکن ایسا پاکستان میں ہوتا ہے۔ عدالت کے فیصلوں کے حوالے سے بھی جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ خاصا تکلیف دہ ہے۔ ایک وڈیو سامنے آئی جس میں احتساب عدالت کے جج اپنے بارے میں کچھ اعتراف کر رہے ہیں پھر ان کے ناچنے کی وڈیو آگئی۔ ایک اخبار نے برطانوی اخبار کے حوالے سے خبر شائع کی کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدالت عظمیٰ کے کئی ججوں کو ان کی وڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا گیا۔ ایسے میں کسی کو سزا یافتہ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کی خبروں سے تو لگتا ہے کہ بیشتر فیصلے سیاسی ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا حالیہ اعتراض تو آصف زرداری کے بارے میں لگتا ہے۔ انہوں نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے یہی کہا کہ آصف زرداری نے 134 غیر ملکی دورے کیے اور 142 کروڑ روپے خرچ کیے، نواز شریف کے دوروں پر 183 کروڑ روپے خرچ ہوئے لیکن اس سے ان لوگوں کا ان معاملات میں سزا یافتہ ہونا کہاں ثابت ہورہا ہے۔ اسی طرح کسی جمہوری ملک میں وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ سوائے پابندیوں، ٹیکسوں اور سزائوں کے کچھ نہیں ہے۔ بظاہر وزیراعظم کا مطالبہ درست ہے لیکن ایسا صاف محسوس ہورہا ہے کہ نشانہ آصف زرداری کا انٹرویو ہے اور انٹرویو لینے والے بھی اس کا نتیجہ کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن جمہوریت میں اختلاف رائے اور اظہار رائے کی بڑی اہمیت ہے۔ آج کل جن لوگوں کے خلاف اور جس قسم کے مقدمات بنائے جارہے ہیں انہیں سیاسی مقدمات ہی کہا جاسکتا ہے اور سزائوں کو بھی سیاسی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف جو الزامات تھے اور تحقیقات ہوئی وہ تو پاناما کے بارے میں تھی لیکن سزا اقامے پر دے دی گئی۔ آنے والے دنوں میں یہی سزا کسی بہانے ختم کردی جائے گی لہٰذا وزیراعظم اظہار رائے سے نہ ڈرائیں اس کا راستہ نہ روکیں۔ ہاں اظہار رائے میں بھی سلیقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔