اسلام آباد (خبر ایجنسیاں) اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی‘ قرارداد پر 38 ارکان کے دستخط موجود ہیں‘ سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے بھی ریکوزیشن جمع کرا دی گئی ہے‘ ایوان بالا میں تبدیلی پر اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس شدید اختلافات کا شکار ہوگیا اور نئے چیئرمین سینیٹ پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا‘ سینیٹر رحمن ملک کا کہنا تھا کہ خفیہ رائے شماری کی صورت میں ناکامی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس کل (جمعرات کو) ہوگاجبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ میں استعفا نہیں دوںگا‘ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل ہے‘ قرارداد پر پریشانی نہیں۔تفصیلات کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرا دی‘ راجا ظفر الحق اور اپوزیشن کے دیگر ارکان نے قرارداد سیکرٹری سینیٹ کو جمع کرائی۔ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر اپوزیشن جماعتوں کے38 ارکان کے دستخط موجود ہیں‘ قرارداد کے ساتھ ہی اپوزیشن ارکان نے سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کرا دی۔ سینیٹ اجلاس بلانے کی
ریکوزیشن پر50 ارکان کے دستخط ہیں۔ سیکرٹری سینیٹ کے مطابق ریکوزیشن پر اجلاس چیئرمین سینیٹ ہی بلائیں گے۔ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس مطلوبہ اکثریت سے زاید کی تعداد موجود ہے‘ 104 رکنی ایوان میں چیئرمین کی نشست کے لیے53 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کی تعداد30، پیپلز پارٹی کے20، نیشنل پارٹی کے5، جے یو آئی ف کے 4، پختونخوا میپ کے 2 اور اے این پی کا ایک رکن شامل ہے۔ دوسری جانب چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا مشاورتی اجلاس شدید اختلافات کا شکار ہوگیا‘ مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک اور پیر صابر شاہ جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک اور شیری رحمن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی‘ اپوزیشن رہنماؤں کی اکثریت نے خفیہ رائے شماری میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر شرمندگی اٹھانے کے خدشات کا اظہار کر دیا۔ نئے چیئرمین سینیٹ کے نام پر بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر پیر صابر شاہ نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے فیصلے پر قیادت سے اختلاف کا اظہار کیا جس پر سینیٹر مصدق ملک کے ساتھ ان کی شدید تلخ کلامی ہوئی۔ پیر صابر شاہ کا کہنا تھا کہ مجھے اعتماد میں لیے بغیر صرف ریکوزیشن پر دستخط کرنے کو کہہ دیا گیا ہے۔ جس پر سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ آپ مجھ سے اونچی آواز میں بات مت کریں۔ اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے سینیٹر رحمن ملک اور اشوک کمار نے بھی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ رائے شماری کی صورت میں ناکامی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ رحمن ملک اور شیری رحمن کے درمیان بھی شدید تلخ کلامی ہوئی۔ادھراسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہانہیں اپنے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع ہونے پر کوئی پریشانی نہیں اور وہ کسی صورت استعفا نہیں دیں گے‘ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل ہے‘ میں بیٹھا ہوں اور اپنا کام کر رہا ہوں۔ علاوہ ازیں اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اجلاس11 جولائی کو اسلام آباد میں طلب کرلیا گیا ہے۔ اکرم دارنی اجلاس کی صدارت کریںگے ‘ کمیٹی نئے چیئرمین سینیٹ کے نام پر مشاورت کرے گی۔
تحریک عدم اعتماد