شبر زیدی کی غلط بیانی

538

ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی نے کہا ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے ۔ اگر کوئی نئے ٹیکس کی نشاندہی کردے تو وہ فوری طور پر واپس لے لیں گے ۔ شبر زیدی جس وقت پیر کو فیصل آباد میں یہ دعویٰ کررہے تھے اس وقت فیصل آباد کے سارے بازار حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں زبردست اضافے کے خلاف احتجاجا بند پڑے تھے ۔ شبر زیدی اپنے آپ کو ماہر اقتصادیات کہتے ہیں اور ایک بڑی آّڈٹ کمپنی کے سربراہ ہیں ۔ اس کے باوجود شبر زیدی کی جانب سے اس طرح کا اعلان حیران کن ہے ۔ بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی اشیائے صرف میں زبردست اضافہ کیا ٹیکس لگائے بغیر ہی ہوگیا ہے ۔ شبر زیدی شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت نے کسی نئے عنوان سے ٹیکس نہیں لگایا بلکہ پرانے ٹیکسوںمیں ہی زبردست اضافہ کردیا ہے ۔ شبر زیدی کا اگر یہی خیال ہے تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ الفاظ سے نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ عوام کی معیشت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ اب تو عمران خان اور شبر زیدی کے آقا آئی ایم ایف نے بھی اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ ان کی ہدایت پر پاکستان کے بجٹ میں ٹیکسوں میں زبردست اضافہ کیا گیا ہے ۔ آئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ عمران خان نے قوم سے جھوٹ بولا ہے ۔ ّآئی ایم ایف کے مطابق پارلیمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ صرف 516 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں جبکہ حقیقت میں 733 ارب 50 کروڑ روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔ صرف یہی نہیں کیا گیا ہے کہ نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں بلکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل بے قدری ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں من چاہے اضافے کے لیے بینک دولت پاکستان ، نیپرا اور اوگرا کودسمبر میں مکمل خودمختاری دے دی جائے گی۔ یعنی اب حکومت ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ میں مداخلت نہیں کرسکے گی اسی طرح بجلی اور گیس کے نرخوں کا تعین بھی اب آئی ایم ایف کرے گی ، حکومت نہیں ۔ اس طرح سے اب ہر کچھ دن کے بعد نئے ٹیکس لگادیے جائیں گے ۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی بتایا ہے کہ رواں برس مہنگائی کی شرح بھی ہولناک یعنی 13 فیصد تک رہے گی ۔ اب شبر زیدی صاحب بتائیں کہ وہ کون کون سے ٹیکس واپس لیں گے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ہوں یا ان کے متعین کردہ وزراء ، انتہائی دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر یہ شرمندہ بھی نہیں ہوتے ہیں ۔ عمران خان سیلیکٹڈ ہوں یا نہ ہوں مگر ایک بات انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازمین سے بھی بڑھ کر ہیں اور اپنی ہی قوم پر آئی ایم ایف کا قلادہ کسنے میں آگے آگے ہیں ۔ عربی کہاوت ہے کہ اکیلی کلہاڑی کچھ بھی نہیں کرسکتی مگر جب اس میں لکڑی کا دستہ لگ جاتا ہے تو وہ جنگل کے جنگل صاف کردیتی ہے۔ اب تک کے عمران خان کے اقدامات اور ان کی ٹیم کی سلیکشن بتاتی ہے کہ وہ لکڑی کا دستہ ہی ثابت ہوئے ہیں جس کی مددسے آئی ایم ایف نے پاکستان پر اپنا قبضہ مضبوط اور مستحکم کرلیا ہے ۔ اب تو عمران خان نے آئی ایم ایف کے پاکستان پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے اسمبلی سے باقاعدہ قوانین کی منظوری بھی شروع کردی ہے ۔ اس وقت تو نہیں معلوم کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر دستخط کیے ہیں ۔ اس کا انکشاف بعد میں ہوگا مگر ان شرائط کی روشنی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہر قسم کی حکومتی مداخلت سے محفوظ رکھنے ، نیپرا اور اوگرا کو ریاست کے اندر ریاست کا درجہ دینے کی جو قانون سازی ہورہی ہے ، وہ ضرور تشویشناک ہے ۔ اس پر محب وطن حلقوں کو نہ صرف آواز بلند کرنی چاہیے بلکہ اس کی بھرپور مزاحمت بھی کرنی چاہیے ۔ اس طرف ہم بار بار توجہ دلاتے رہے ہیں کہ ماہرین پر مشتمل محب وطن حلقوں کو کم از کم ایک ایسا پلیٹ فارم ضرور تشکیل دینا چاہیے جہاں پر ایسے سرکاری اقدامات کا پوسٹ مارٹم کیا جائے اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے جائیں ۔ اس وقت معاملہ ابھی یا پھر کبھی نہیں پر پہنچ چکا ہے ۔ اگر اس وقت بھی آئی ایم ایف کے پاکستان پر قانونی قبضے کی مزاحمت نہیں کی گئی تو پاکستان اپنی آزادی کی 75 سالہ سالگرہ منانے سے قبل ہی دوبارہ سے نوآبادیاتی دور میں داخل ہوچکا ہوگا ۔