دوحا(خبر ایجنسیاں) قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کیلیے طالبان اور دیگر متحارب دھڑوں میں مذاکرات شروع ہوگئے۔گزشتہ روز مقامی لگژری ہوٹل میں سخت سیکورٹی میں ہونے والے یہ مذاکرات ساڑھے آٹھ گھنٹے جاری رہے۔مذاکرات میں تقریباً 70 مندوبین شریک تھے۔کانفرنس روم میں داخل ہونے سے قبل تمام افراد کو اپنے موبائل فونز انتظامیہ کے حوالے کرنے پڑے۔ مذاکرات میں فریقین نے ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کی۔یہ مذاکرات امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کے ایک ہفتے بعد ہورہے ہیںجن میں دونوں فریق قیام امن کی جانب پیشرفت کرنا چاہتے ہیں۔طالبان اور امریکا کے مذاکرات میں افغان دھڑوں کے ان مذاکرات کی وجہ سے 2 دن کا وقفہ دیا گیا ہے اورطالبان اورامریکا کے مذاکرات دو روز کے وقفہ کے بعد آج بروز منگل دوبارہ شروع ہوں گے۔امریکا ستمبر میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات سے قبل کو ئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے امریکی افواج کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوسکے۔افغان دھڑوں کے مذاکرات کے دوران ہال میں ایک بڑی میزرکھی تھی جس پرمندوبین براجمان تھے جبکہ سامنے ایک بڑی ا سکرین لگائی گئی اور میزبان ملک قطر اور جرمنی کے نمائندے وہاں بیٹھے تھے۔مذاکرات کے آغاز پر اپنے افتتاحی کلمات میں افغانستان اور پاکستان کیلیے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکس پوٹزل نے کہا آج یہاں کچھ روشن خیال ذہن موجود ہیں جو افغان معاشرے کے ایک حصے کی نمائندگی کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ سب کے پاس پر تشدد کشیدگی کو ایک پر امن مباحثے میں بدلنے کے طریقے تلاش کرنے کا ایک منفرد موقع اور ذمہ داری ہے۔طالبان وفد کے سربراہ عباس استانکزئی جب کانفرنس میں داخل ہورہے تھے توان کی سیکورٹی گارڈ سے تلخ کلامی ہوگئی۔سکیورٹی گارڈ کے روکے جانے پر عباس ستانکزئی نے کہا ہم مذاکرات میں جانا چاہ رہے ہیں لیکن وہ ہمیں جانے نہیں دے رہے جس پر ایک افسر نے کہا کہ ہم آپ سے مذاق نہیں کررہے ہیں، ہم پر چلّانا بند کریں۔اس کے بعد عباس ستانکزئی، طالبان کے دوحا آفس کے ترجمان سہیل شاہین سمیت وفد کے ساتھ کانفرنس روم میں پہنچے۔طالبان اور دیگرافغان دھڑوں کے وفود کو ثالثیوں کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے تنہا چھوڑنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قطری وزات خارجہ کے نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی مطلق القحطانی نے کہا کہ ہم تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کی دوحا میں ملاقات پر بہت خوش ہیں۔ہم افغانستان کے مستقبل کی راہ کا تعین کرناچاہتے ہیں۔سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کیلیے تشکیل کردہ اعلیٰ امن کونسل کی رکن ا صیلہ وردک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہر کوئی جنگ بندی پر غور کررہا ہے۔اصیلہ وردک نے مزید کہا کہ عباس استانکزئی نے خواتین کے کردار، معاشی ترقی اور اقلیتوں کے کردار پر طالبان کے موقف سے متعلق بات چیت کی ہے۔ وہ افغان ثقافت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر خواتین کو کام کرنے، اسکول جانے اور پڑھنے کی اجازت دینے پر تیار ہیں۔
دوحا مذاکرات