دوسر ااجلاس
یہ اجلاس ۱۱ ؍نومبر اتوار نو بجے صبح شروع ہوا۔ اس میں جناب ممتاز حسین صاحب رکن جماعت کراچی نے مولانا مسعود عالم ندویؒ صاحب کا مقالہ ’برعظیم ہند و پاکستان میں اسلامی تحریک کی تاریخ‘ پڑھ کر سنایا ( روداد ششم ‘ ص ۱۷۳ تا ۲۰۶)۔ اس کے بعد جناب فضل الرحمن نعیم صدیقیؒ صاحب مدیر ’چراغ راہ‘ کراچی نے’’ اسلامی تحریک اور دوسری تحریکوں میں فرق‘‘ کے موضوع پر تقریر کی اور بتایا کہ دنیا میں اس وقت جو بڑی بڑی تحریکیں چل رہی ہیں‘ ان میں اور اسلامی تحریک میں اصول‘ فلسفہ اور نتائج کے لحاظ سے کیا فرق ہے ( رودادششم ‘ ص ۲۰۷ تا ۲۸۲ )۔
اس کے بعد اجلاس میں سید نقی علی صاحب ناظم مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی نے مولانا مسعود عالمؒ ندوی کا دوسرا مقالہ ’’دنیائے اسلام کی موجودہ اسلامی تحریکیں‘‘ پڑھ کر سنایا‘ جس میں مولانا نے بتایا ہے کہ اس وقت مختلف مسلم ممالک میں احیائے اسلام کی جو کوششیں ہورہی ہیں‘ وہ کس نوعیت کی ہیں؟ ان سے پیش نظر مقصد کے حصول کی امیدیں کس حد تک وابستہ کی جاسکتی ہیں ( روداد ششم‘ ص ۲۸۳ تا ۳۰۸ )۔
تیسرا اجلاس
یہ اجلاس ۱۱؍ نومبر بروز اتوار ۶ بجے شام بعد نماز مغرب شروع ہوا۔ سب سے پہلے مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ’’ہم اس ملک میں کیا تغیّرات چاہتے ہیں؟‘‘ کے موضوع پرخطاب کیا۔ انہوں نے اس میں اس امر کی وضاحت کی کہ: اس مضمون کے بار بار اعادے کا مقصد اوراس اجتماع میں اسے پبلک کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اس ملک کے دستور‘ قوانین‘ نظم و نسق‘ نظام‘ تعلیم و تربیت‘ معاشرت اور معیشت وغیرہ میں کیا کیا تغیّرات ضروری ہیں۔ ( روداد ششم‘ ص ۳۰۹ تا ۳۴۶ ) اس کے بعد امیر جماعت اسلامی نے اختتامی تقریر ’’مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل‘‘ کے موضوع پر کی۔جس میں پاکستان کی موجودہ خرابیوں کے تاریخی اسباب پر مفصل تبصرہ کیا اور جماعت کی اصلاحی و تعمیری لائحہ عمل کی تشریح کی۔ آخر میں سوالات کے جوابات دیے۔اجلاس رات دس بج کر بیس منٹ پر ختم ہوا۔
چوتھا اجلاس
یہ اجلاس ۱۲؍ نومبر بروز پیر صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس میں وہ تجاویز پیش ہوئیں جو جماعت اسلامی کے مختلف مقامات اور ارکان کی طرف سے آئی تھیں۔ مرکز میں بروقت پہنچنے والی تجاویز تو مجلس شوریٰ نے مرتب کرکے اجتماع میں پیشی کے لیے ارکان شوریٰ کے سپرد کردی تھیں۔ بعد میں موصول ہونے والی تجاویز ان کے مجوزین ہی پیش کرنے کے ذمہ دار تھے۔اجلاس کی کارروائی کے لیے امیر جماعت نے اجلاس کے آغاز میں قواعد و ضوابط کا اعلان کیا۔
اجلاس میں پیش کردہ تجاویز
۱۔ تجاویز بسلسلہ دستور جماعت اسلامی پاکستان
دستوری ذیلی کمیٹی نے مسودہ تیار کرکے ارکان جماعت کے پاس بھیج دیا تھا۔ لیکن ارکان کی طرف سے اتنی زیادہ ترامیم آئی ہیں کہ ان کو سنانے کے لیے کم از کم دو دن درکار ہوں گے اور ان چار سو ارکان کے ایوان میں بحث اور فیصلہ کرنے کے لیے کتنے ہفتے درکار ہوں گے۔ اس لیے مجلس شوریٰ نے یہ تجویز کیا کہ دستور کے اس مسئلے کو اجلاس عام میں پیش کرنے کے بجائے ارکان جماعت میں سے ہر بیس نمائندوں میں سے ایک فرد منتخب کرکے ایک مجلس ترتیب دستور منتخب کریں‘ جس کو یہ اختیار ہو کہ ان سب ترامیم کو اور ان مزید ترامیم کو بھی جو ارکان اس سلسلے میں اور بھیجنا چاہیں‘ سامنے رکھ کر جماعت کے لیے دستور وضع کرے۔ پاکستان کے لیے تمام دس حلقوں کے ارکان کی کل تعداد کے لحاظ سے منتخب مجلس دستور کے اراکین کی تعداد ۳۴ مقرر کی گئی۔ دستور کی ایک ایک شق پر بحث ہوئی اور بعض میں ترمیمات بھی پیش ہوئیں اور رائے شماری کی ضرورت پیش آئی۔بعد ازاں یہ تجویز قبول کرلی گئی کہ مجلس کے ارکان کی تعداد ۳۴ کے بجائے ۳۹ کردی جائے اور ان پانچ ارکان کو غیر علاقائی بنیاد پر منتخب کیا جائے۔
۲۔ تنظیم متفقین جماعت اسلامی پاکستان
یہ تجویز بھی مجلس شوریٰ کی طرف سے تھی اور اسے چودھری علی احمد خاں صاحب نے پیش کیا۔ تجویز یہ تھی کہ آئندہ ایک سال میں کوشش کی جائے کہ جماعت کے متفقین کی تعداد کم از کم بارہ ہزار تک پہنچ جائے‘ جن میں لاہور‘ گوجرانوالہ‘ لائل پور اور ملتان کے حلقے دو دو ہزار‘ حلقہ راولپنڈی اور ریاست بہاولپور ایک ایک ہزار‘ حلقہ سندھ و کراچی بقیہ ۱۳۵۰ اور حلقہ سرحد۵۰۰‘بلوچستان ۵۰ اور حلقہ مشرقی پاکستان ۱۰۰ کی تعداد پوری کریں۔ بارہ ہزار کی یہ تعداد مختلف تنظیمی حلقوں کے ذمہ دار حضرات کے مشورے سے اور حلقوں کے حالات کا جائزہ لے کر مقرر کی گئی۔ مجلس کے نزدیک یہ تعداد کم سے کم ہے جو ایک سال کے اندر پوری ہونی چاہئے۔ مقررہ شرائط کو بالفعل پورا نہ کرنے والوں کو متفقین میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ایک واضح اور متعین ہدف موجود رہے‘ جسے نگاہ میں رکھ کر سال بھر کام کیا جائے اور اس کے بعد پھر مل کر بیٹھیں اور صورتحال پر غور کیا جائے۔ ہدف کی کمی کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد یہ اجلاس سوا گیارہ بجے دوپہر برخاست ہوگیا۔
(جاری ہے)