جب دشمنانِ حق اپنے منصوبے میں ناکام ہوکر ناامید اور مایوس ہوگئے تو وہ اس ’’بہادر‘‘ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلے۔ وہ انھیں اس مقام کی طرف لے جا رہے تھے جس کا نام ’’تنعیم‘‘ تھا اور یہی سیدنا خبیبؓ کا مقتل قرار پایا۔ وہ خبیبؓ کو لے کر اس مقررہ جگہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپؓ نے ان سے 2 رکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی۔ انھوں نے اس خیال سے اجازت دے دی کہ شاید وہ اس طرح اللہ و رسول اور دین سے کفر کے اعلان کرنے کے لیے کچھ سوچنا چاہتا ہو۔
خبیبؓ نے بڑے سکون اور خشوع سے بآواز خفی 2 رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران ان کی روح میں حلاوتِ ایمان یوں مچل رہی تھی کہ ان کا جی چاہ رہا تھا وہ اِن رکعات کو لمبا کریں اور پڑھتے ہی رہیں لیکن انھوں نے اپنے قاتلوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کر لو کہ میں موت سے خائف ہوں تو میں ضرور اس نماز کو مزید طویل کرتا‘‘۔ پھر انھوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بددعا کی ’’اے اللہ! ان کو ایک ایک کرکے گن لے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے مار دے۔
دشمنانِ حق نے کھجور کے تنوں سے ایک بہت بڑی صلیب تیار کی اور اس کے اوپر خبیبؓ کو باندھ دیا۔ ہر طرف سے مضبوطی کے ساتھ انھیں باندھا ہوا ہے اور مشرک دشمنی کا بدترین مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ نیزہ باز اٹھتے اور اپنے نیزے پھینکنے کے لیے نیزہ بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سْولی پر لٹکے بہادر کے ساتھ بہیمیت کا یہ بدترین مظاہرہ بڑے سکون سے شروع ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ بہادر اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا۔ ان کے چہرے پر عجیب نورانی سکینت نازل ہو رہی ہے۔ نیزے ان کے بدن میں پیوست ہونے اور تلواریں ان کی بوٹیاں اْڑانے کے لیے تیار ہیں۔
اس موقع پر قریش کا ایک سردار اِن کے قریب آتا ہے اور ان سے کہتا ہے ’’کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت محمدؐ تیری جگہ ہو اور تو صحیح سلامت اپنے اہلِ خانہ میں ہو؟
خبیبؓ نے لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر اپنے قاتلوں کو مخاطب کر کے بآواز بلند کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول اللہؐ کو ایک کانٹا چبھے اور میں اپنے اہل واولاد میں رہوں اور دنیا کی نعمت و سلامتی مجھے میسر ہو۔
یہی وہ عظیم اور غضب ناک الفاظ ہیں جو خبیبؓ کے ساتھی زید بن دثنہؓ نے بھی اپنی شہادت کے موقع پر فرمائے تھے۔ کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دینے والے یہ ہیبت ناک الفاظ کل زیدؓ نے کہے تھے اور آج خبیبؓ کہہ رہے تھے۔ ان الفاظ نے ابوسفیان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا اللہ کی قسم! میں نے کسی سے محبت کرنے والا کوئی آدمی نہیں دیکھا جس طرح محمدؐ کے ساتھی محمد سے محبت کرتے ہیں۔
خبیبؓ کے یہ الفاظ گویا نیزوں اور تلواروں کو اپنا کام کر دکھانے کی اجازت دینا تھا اور یہی ہوا کہ یہ نیزے اور تلواریں وحشیانہ انداز میں ان کے جسم پر برس پڑیں۔ اس مقتل کے قریب آسمان پر پرندے اْڑ رہے تھے۔ گویا وہ اس انتظار میں تھے کہ یہ قصاب اپنے کام سے فارغ ہوں تو ہم اپنا کام شروع کریں۔ لیکن یہ چیل اور گِدھ چیختے اور ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، اپنی چونچیں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں گویا یہ آپس میں کوئی سرگوشی اور مشاورت کر رہے ہوں۔ پھر اچانک اْڑتے اور فضا میں بکھر کر دور دور چلے جاتے ہیں۔ شاید ان پرندوں نے صالح اور فرمانبردار آدمی کے جسم سے آنے والی خوشبو کو محسوس کر لیا تھا اور شرمندہ ہوگئے تھے کہ اس پاکیزہ جسد سے کوئی بوٹی نوچ کھائیں۔
پرندوں کا یہ غول خبیبؓ کے جسد کو چھوئے بغیر دور فضا مں جا چھپا اور مشرکین ظلم وشقاوت کا بدترین مظاہرہ کرنے کے بعد واپس مکہ مں اپنے حسد بھرے گھروں میں آ گئے اور خبیبؓ کا جسدِ شہید اس حال میں وہیں چھوڑ آئے کہ نیزہ بازوں اور تلوار زنوں کی ایک جماعت اس کی نگرانی پر مامور تھی تاکہ مسلمان اس کو اتار کر لے نہ جائیں۔ جس وقت ان لوگوں نے خبیبؓ کو باندھ کر صلیب پر لٹکایا تھا تو خبیبؓ نے آسمان کی طرف رْخ کرکے گڑگڑا کر اپنے رب سے عرض کیا تھا:
اے اللہ! ہم نے تو تیرے رسولؐ کا پیغام پہنچا دیا۔ اب تو بھی اپنے رسول تک اس کی خبر پہنچا دے جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہؐ مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے اندر یہ شدید احساس پیدا ہوا کہ آپ کے صحابہ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپؐ کو ان میں سے ایک صحابی کا جسد سْولی پر لٹکا ہوا بھی دکھایا گیا۔ آپؐ نے فوراً مقداد بن عمرو اور زبیر بن عوامؓ کو بلایا اور ان آدمیوں کی خبر کے لیے روانہ کردیا۔ دونوں جواں مرد اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نہایت تیز رفتاری سے چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مطلوبہ جگہ پر پہنچادیا اور انھوں نے اپنے ساتھی خبیبؓ کو صلیب سے نیچے اتار لیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ خبیبؓ کی قبر کہاں ہے۔ شاید یہی ان کے زیادہ شایانِ شان تھا کہ وہ تاریخ کے تذکرے اور زندگی کے ضمیر مں باقی رہیں تو انھیں ’’تختۂ دار پر موجود جواں مرد‘‘ کے طور پر ہی یاد کیا جائے۔ (بشکریہ اردو ڈائجسٹ)