سرکار کی جانب سے دی گئی ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہوتے ہی حزب اختلاف کی بے نامی جائیدادوں کی ضبطی کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ بدھ کی رات 12 بجے شب ایمسنٹی اسکیم کی مہلت ختم ہوئی اور رات ہی سے بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کی خبریں آنی شرو ع ہوگئیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ تیار تھا بس مہلت ختم ہونے کا انتظار کیا جا رہا تھا ۔ رات بارہ بجے ایمنسٹی کے تحت غیر اعلان شدہ اثاثوں کو ظاہر کرنے کا وقت ختم ہوا اور بارہ بجکر ایک منٹ ہی سے میڈیا میں ضبطی کی خبریں آنا شروع ہوگئیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلہ سجایا ہی اسی لیے گیا تھا کہ صرف اور صرف حزب اختلاف کو نشانہ بنایا جاسکے ۔ جن لوگوں نے کرپشن کی ہے اور لوٹ مار کی ، ایسے افراد سے پیسے کی وصولی اور انہیں عبرتناک سزا دینے کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ ایسے افراد سے نہ صرف لوٹی گئی رقم وصول کی جائے بلکہ انہیں قانون کے مطابق سزا بھی دی جائے ۔ اختلاف اس مقام سے شروع ہوتا ہے کہ چہیتے افراد کو تو کچھ نہ کہا جائے اور صرف ان افراد کو نشانے پر رکھا جائے جو اختلاف کررہے ہیں ۔ اس کا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہے کہ سزا بدعنوانی کی نہیں دی جارہی بلکہ اختلاف کی دی جارہی ہے ۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ کوئی بھی جرم کیا ہو ، بس تحریک انصاف میں شامل ہوجاؤ اس کے بعد انتظامیہ ، نیب اور پولیس بھی کچھ نہیں کہے گی بلکہ عدلیہ سے بھی کلین چٹ مل جائے گی ۔ فردوس عاشق اعوان سمیت ایسے سیکڑوں افراد کی فہرست موجود ہے جن کے خلاف نیب تحقیقات کررہی تھی اور جیسے ہی یہ افراد حکومت کی کشتی میں سوار ہوئے ، ان کا نام مجرموں کی فہرست سے کاٹ کر فرشتوں کی فہرست میں درج کرلیا گیا ۔ بدعنوان افراد کے خلاف مہم کے لیے کسی ایمنسٹی اسکیم کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ مہم تو سال کے بارہ ماہ جاری رہنی چاہیے ۔ اس کے بارے میں ملک میں واضح قوانین موجود ہیں ، تحقیقاتی ایجنسیاں موجود ہیں اور تفتیشی ادارے بھی ۔تو پھر یہ کارروائی پہلے کیوں نہیں کی گئی اور اب کیوں کی جارہی ہے ۔جس طرح کارروائی کی گئی ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام معلومات تو پہلے سے موجود تھیں ، بس وقت کا انتظار کیا جارہا تھا ۔ عمران خان بتائیں گے کہ کیا ایسی ہی کارروائیاں ان افراد کے خلاف بھی کی جائیں گی جو تحریک انصاف میں شامل ہیں اور ایک ذریعے کے مطابق ان کی تعداد 41 ہے۔ اور کیا ایسی ہی کارروائی ان بااثر افراد کے خلاف بھی کی جائے گی جو طاقتور بیوروکریسی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں ۔ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ سوالات کا جواب نفی میں ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی بدعنوانی ہے مگر عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ اس میں صرف اور صرف حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستداں شامل نہیں ہیں ۔ عوام روز جن مسائل سے نبرد آزما ہیں ، ان کا تعلق بدمعاش بیوروکریسی سے ہے ۔ ایک عام پولیس اہلکار اس وقت تک بدمعاشی نہیں کرسکتا ، جب تک اسے اپنے ایس ایچ او کی پشت پناہی حاصل نہ ہو ، ایک ایس ایچ او اس وقت تک بدعنوانی نہیں کرسکتا جب تک ایس ایس پی اس کا پشتیبان اور حصہ دار نہ ہو ااور اسی طرح آئی جی کی مدد اور منشا کے بغیر کوئی ایس ایس پی بدعنوان ایس ایچ او کو برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ یہی صورتحال ہر شعبہ میں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بد عنوانی کا زہر سرکاری افسران میں ہر سطح پر سرایت کرچکا ہے ۔ جب تک بیوروکریسی میں اصول پسند ، اہل اور ایماندار افسران موجود تھے ، پاکستان ترقی کی راہ پر تھا ۔ اگر بیوروکریسی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو بدعنوانی سے پاک کردیا جائے تو کسی سیاستداں کی نہ تو بدعنوانی کی ہمت ہوگی اور نہ ہی اسے موقع ملے گا ۔بلوچستان کے ایک سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر سے کروڑوں روپے نقد کی برآمدگی اور اس کی اربوں روپے جائیداد کی خبریں زیادہ پرانی نہیں ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان شعبہ جات میں بدعنوانی کی کیا صورتحال ہے ۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان صفائی مہم کا آغاز بیورو کریسی ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے کریں ۔ شبر زیدی تو خود ان افراد کا ایف بی آر سے کیس لڑتے رہے ہیں جو ٹیکس چھپاتے بھی رہے ہیں اور کالا دھن بھی رکھتے تھے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ شبر زیدی سب سے پہلے ایسے ہی افراد کے خلاف کارروائی کرتے جن کے بارے میں ذاتی طور پر آگاہ ہیں ۔ عمران خان جس طرح سے کارروائی کررہے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کارروائی اسی طرح کی ہے جس طرح وہ غیرملکی بینکوں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی بات کرتے رہے ہیں ۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرے گا کہ قانونی موشگافیوں کی بنا پر یہ ساری جائیدادیں واپس اپنے مالکان کے پاس پہنچ چکی ہوں گی اور پاکستانی قوم دیکھ رہی ہوگی کہ آخر اس ڈرامے سے حاصل کیا ہوا ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ عمران خان اپنے گزشتہ اعلانات کے مطابق بدعنوان افراد کے خلاف بلا امتیاز اور بلاتخصیص آپریشن کا آغاز کریں ۔ یہ آپریشن جامع ہونا چاہیے کہ اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکیں ۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کچھ بھی کہتے رہیں ، بدعنوان افراد کا کلب نہ صرف ڈٹا ہوا ہے بلکہ علی الاعلان لوٹ مار میں بھی مصروف ہے ۔