کراچی میں ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹرسائیکل سواروں کے خلاف مہم ایک مرتبہ پھر سے جاری ہے ۔ روز پولیس کا ترجمان بتاتا ہے کہ ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹرسائیکل سواروں سے اتنا جرمانہ وصول کیا گیا اور اتنی موٹر سائیکلیں ضبط کی گئیں ۔ اس وقت کراچی ٹریفک پولیس موٹر سائیکل سواروں کے لیے دہشت گرد فورس کا روپ دھار گئی ہے ۔ہیلمٹ نہ پہننے کا جرمانہ تو سرکاری طور پر 170 روپے ہے مگر موٹر سائیکل کو بند کرنے کی دھمکی دے کر پولیس اہلکار موٹر سائیکل سواروں سے کئی سو روپے رشوت بھی وصول کررہے ہیں ۔ یہاں پر وہی پرانا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہیلمٹ نہ پہننا جرم ہے تو پھر اس کی ایک مخصوص عرصے کے بعد مہم چلانے کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے اور پھر اس کی سزا میں ابہام کیوں ہے اور موٹر سائیکل کو بند کرنے کی شق کیوں رکھی گئی ہے ۔ کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ میں ٹریفک کا حال انتہائی ابتر ہے ۔ کہیں پر بھی کوئی نظم و ضبط دیکھنے میں نہیں آتا ۔ دن بھر بھاری ٹریفک کو بھی سڑکوں پر رواں دواں دیکھا جاسکتا ہے اوربلا نمبر چنگ چی رکشوں کو چلاتے کمسن ڈرائیور بھی ۔ مگر کہیں بھی پولیس اہلکار اپنے فرائض انجام دیتے نظر نہیں آتے ۔ سڑکوں پر یہ عام مناظر ہیں کہ پولیس اہلکار گینگ بنا کر کھڑے کمرشل گاڑیوں سے صرف اور صرف بھتا کی وصولی کررہے ہوتے ہیں ۔ اتوار کے دن صبح سے ہی یہ اہلکار ہر موڑ پر کھڑے ہر گاڑی سے رشوت وصول کررہے ہوتے ہیں ۔ اگر پولیس سربراہان اپنے ماتحتوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ان کا مقصد جرمانے کرنا نہیں ہے بلکہ قانون پر عملدرآمد کروانا ہے تو شاید کراچی اور پورے سندھ کی ٹریفک ہی سدھر جائے اور اسے پورے ملک میں رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے ۔ کون نہیں جانتا کہ پارکنگ مافیا صرف اور صرف ٹریفک پولیس کی معاونت ہی سے اپنا کام کررہی ہے جس کی وجہ سے اہم شاہراہوں پر ہر وقت ٹریفک جام رہتا ہے ۔ یہ اطلاع بھی سوشل میڈیا پر عام ہے کہ پہلے بڑی تعداد میں ہیلمٹ درآمد کیے جاتے ہیں اور پھر ہیلمٹ مہم کے ذمہ دار بھاری رشوت کے عوض یہ مہم شروع کردیتے ہیں ۔ جب درآمدی کنسائنمنٹ ختم ہوجاتا ہے تو مہم بھی کہیں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ا س کا نوٹس لیں ۔ کراچی کے شہری پہلے ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے پریشانیوں کا شکار ہیں ۔ اب ٹریفک پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگا کر عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ رشوت خور پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف بھی کوئی مہم چلائی جائے ۔