مسئلہ کشمیر، جہاد اور جماعت اسلامی (باب ہشتم)

344

تمام سرکاری ملازمین اور محکموں کو پارٹی کے رضاکاروں اور سرکاری محکموں کواپنی شاخوں میں تبدیل کرکے رکھ دیاہے۔ سرکاری ملازم اور محکمے‘ چلتے پبلک کے خزانے سے ہیں اور کام مسلم لیگ کے رضاکاروں اور شاخوں کا لیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ کے مخالف لوگوں اور پارٹیوں کی ڈاک سنسر ہوتی ہے‘ تار روکے جاتے ہیں۔ سی آئی ڈی کے بے شمار آدمی ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ سرکاری محکموں اور ملازمین کا وقت اور روپیہ بے دردی سے ان کی نگرانی، مزاحمت اور پروپیگنڈے پر صرف ہورہا ہے۔ پولیس‘ مجسٹریٹوں‘ حکام مال اور دوسرے سرکاری عملے کو اپنے مخالفین کے مقابلے کے لیے اس طرح بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے‘ جیسے وہ برسراقتدار پارٹی کے ملازم ہیں اور ان کا کام ملک کے اندر مسلم لیگ کے سوا ہر دوسری پارٹی کو دبانا اور کچلنا ہے۔ ہر وہ شخص جو مسلم لیگ سے اختلاف کرے ’’ملک دشمن‘‘ اور ’’باغی‘‘ ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک کھیل جو برسراقتدار پارٹی کھیل رہی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس نے انتخابات کو دھن‘ دھونس‘ دھوکے اور دھاندلی کا کھیل بناکر رکھ دیا ہے۔ اختیارات اور ذرائع ناجائز طورپر بے دریغ استعمال ہورہے ہیں۔ یہ بددیانتی ہی نہیں بلکہ صریحاً ملک کی تخریب ہے۔ اس کے خوفناک نتائج کا شاید انہیں اندازہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے ساتھ سنگین غداری‘ بدخواہی اور دشمنی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو جمہوری و آئینی ذرائع سے مایوس کرکے یہ یقین دلایا جائے کہ یہاں اب جو سیاسی تغیر ہوگا صرف غیر آئینی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تغیر فطرت کے ناگزیر تقاضوں میں سے ایک ہے‘ اس لیے اس کو روکنا کسی انسانی طاقت کے بس میں نہیں۔ جمہوری انتخابات کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ اس کو ایک پرامن اور معقول راستہ فراہم کردیتے ہیں۔ یہ راستہ کھلا نہ رکھنے سے فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے انقلاب کا وہ راستہ کھل جاتا ہے‘ جس سے بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانیوں کے تختے الٹتے رہتے ہیں۔ جمہوری انتخابات ہمیں اس پر خطر راستے پر جانے سے بچا لیتے ہیں‘ کیونکہ انقلاب کے بعد کے اثرات قوموں کے لیے بہت تباہ کن ہوتے اور اس کو ٹھیک کرنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ اگر انتخابات بالکل ایمان داری کے ساتھ آزادانہ فضا میں ہوں‘ اور ہر عنصر کو یکساں اور منصفانہ مواقع حاصل ہوں‘ یعنی ووٹ کا حق کسی دبائو یا لالچ کے بغیر آزادی سے استعمال کرنے دیا جائے اور رائے شماری میں کسی دھاندلی سے کام نہ لیا جائے تو ملک کی اکثریت جس کے حق میں بھی ہو‘ اس کو اقتدار مل کر رہے گا ورنہ انتخابات ایک ڈھونگ بن کر رہ جائیں گے۔
ہمارے ملک میں انتخابات انتہائی غیر منصفانہ طریقوں سے منعقد ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں مخالف پارٹیوں کو اخبارات اور ریڈیو کی طاقت سے بالکل یا بڑی حد تک محروم کردیا جاتا ہے۔ ان ہی ذرائع نشرو اشاعت سے ان کے خلاف جھوٹ کی ہمہ گیر مہم چلائی جاتی ہے۔ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ بہتان تراشی کی جاتی ہے۔ زرخرید مولویوں اور پیروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں رائے دہندگان کی فہرستوں میں ہزارہا جعلی ووٹروں کے نام درج کرائے جاتے ہیں اور ہزارہا اصل ووٹروں کے نام‘ سرکاری عملے کی مدد سے ساقط کرادیئے جاتے ہیں۔ تیسری مہم کے طورپر‘ صاف صاف احکامات کے ذریعے مجسٹریٹوں سے اپنے مخالفین کے کاغذات نامزدگی نامنظور کرائے جاتے ہیں اور اپنے خاص خاص من چاہے آدمیوں کو بلامقابلہ منتخب کرایا جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنروں‘ پولیس‘ پٹواریوں‘ نمبرداروں اور افسروں کے ذریعے رائے دہندگان کو کھلم کھلا ڈرانے‘ دھمکانے اور لالچ دینے دلانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے‘ تاکہ وہ برسراقتدار لوگوں کو ووٹ دیں۔ر ائے دہندگان میں روپیہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دن‘ ہزارہا کرائے کے آدمی‘ بسوں‘ لاریوں اور ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے جاتے ہیں‘ اور علی الاعلان پولیس اور بوتھ کے افسروں کے سامنے جعلی ووٹ بھگتائے جاتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں میںجبراً ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ مخالف پارٹیوں کے بکسوں میں ووٹ ڈالنے والوں سے پرچیاں چھین لی جاتی ہیں اور اپنے من مانے نتائج ہر قسم کی دھاندلی کے ذریعے حاصل کرلیے جاتے ہیں۔
پنجاب اور سرحد کے انتخابات کے تجربوں سے لوگوں میں جمہوری طریقوں سے مایوسی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ برسراقتدار طبقہ‘ ملک کو جس تباہی کے راستے پر لے جارہا ہے‘ اس بارے میں سوچ کر اور ملک کے تاریک مستقبل کا تصور کرکے میری روح کانپ جاتی ہے۔ میں برسراقتدار طبقہ سے بڑی دل سوزی سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اس تباہی کے راستے کو نہ اپنائیں۔ اس میں نہ ہماری خیر ہے‘ نہ آپ کی اور نہ اس ملک کی خیر ہے۔
(جاری ہے)