ملک کی انتظامی حالت کا معیار تیزی سے گرتا جارہا ہے۔ انگریز کے دور میں سرکاری ملازمین کی فرض شناسی‘ ڈسپلن اور کارکردگی کے مقابلے میںاس کا معیار پچیس فیصد بھی نہیں رہا ہے۔ رشوت خوری‘ اقربا پروری‘ خیانت‘ غبن اور سفارشی عمل کا زہر پورے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے اور غلامی کے دور کے مقابلے میں اس میں سو فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ پنجاب کے نظم و نسق کی گرتی ہوئی حالت کا اندازہ وزیراعظم پنجاب کے سیکریٹری کی مرتب کردہ رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ مال گزاری اور دیگر محکموں کے سرکاری ریکارڈ میں جھوٹے اندراجات کرنے اور جعلی دستاویزی بنانے کا طریقہ متعلقہ اہل کاروں کی مٹھی گرم کرنے کے طریقے کے بل بوتے پر چل پڑا ہے۔ پولیس مجسٹریٹ کے قابو میں نہیں رہی‘ بلکہ الٹا وہ پولیس سے خائف ہیں۔ برسراقتدار پارٹی نے پورے ملک کو اپنی متروکہ جائیداد سمجھ کر اپنے نام الاٹ کرلیا ہے اور سرکاری ملازموں کو اپنے خاندانوں‘ دوستوں کا ملازم اور اپنی پارٹی کا والنٹئر بنالیا ہے۔
معاشی اور سیاسی حالت
ملک کا پورا معاشی نظام بے انصافی کا شکار ہے۔ معاشی نا انصافی میں قیام پاکستان کے بعد سے اور اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع اور وسائل رکھنے والا زور آور ہے اور اس کے لیے ترقی و خوشحالی اور عیش و عشرت کی راہیں کھلی ہیں۔ کمزور اور بے وسیلہ لوگوں کے لیے عزت کے ساتھ جینا بھی دوبھرہے۔ زرعی اصلاحات کے ڈھونگ کے ذریعے مالکان زمین اور کاشت کاروں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑاکر اپنا الو سیدھا کیا جارہا ہے۔ غریب طبقوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ان کی طاقت سے زیادہ اور امیر طبقوں پر ان کی طاقت سے کم ڈالا گیا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جعلی رجسٹر رکھنا‘ جھوٹے حسابات پیش کرنا‘ جھوٹے حلفیہ بیانات دینا اور رشوتیں دینا روزمرہ کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ راست باز اور ایمان دار عنصر بھی مجبور ہورہا ہے کہ یا تووہ جھوٹا‘ جعل ساز اور رشوت خور بن جائے یا کاروبار اور ملازمت چھوڑ دے۔ ملک کے سیاسی حالات ملک کو انارکی اور ڈکٹیٹر شپ کی طرف لیے جارہے ہیں۔
جن لوگوں کے ہاتھ میں ملکی سیاست کی باگیں ہیں‘ وہ محض اپنی شخصی اور جماعتی خودغرضی کی بناء پر جمہوریت اور آزادی صحافت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ آزاد اخبار نویس کا قریب قریب خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اب کوئی غیر جانبدار اور برسراقتدار طبقے پر تنقید کرنے والا اخبار جی ہی نہیں سکتا۔ خوشامد پرست‘ سچ کو چھپانے‘ جھوٹ پھیلانے والے بے ضمیر و بندئہ شکم اخبار اس دور میں پھل پھول سکتے ہیں۔ انہوں نے خبر رسانی کے ذرائع پر بھی مخفی اور ظاہر طریقوں سے قبضہ جما رکھا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر صرف انہی کی مرضی کی خبریں شائع کرنے کی اجازت ہے۔ دوسری تمام خبروں کا مکمل بلیک آئوٹ کرتے اور کراتے ہیں۔
ریڈیو جیسے پبلک ادارے کو جو عوام کے خرچ سے چل رہا ہے‘ اپنی پارٹی کا ترجمان بنالیا ہے۔ حکمراں پارٹی کی اغراض کے مطابق آوازیں ہی ان نشر گاہوں سے بلند ہوسکتی ہیں۔ مخالف اور حکمرانوں کے معتوب لیڈروں کی آواز نہ تو آج تک یہاں سے سنی گئی ہے اور نہ سننے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ہمارا ریڈیو ملک کی آبادی کو ہر وقت یہ باور کرانے میں مشغول رہتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے سوا اس ملک میں سرے سے کوئی اور پایا ہی نہیں جاتا۔
انگریزوں کے کالے قوانین جو انہوں نے غلام ملک پر حکومت کرنے کے لیے وضع کئے تھے‘ تاکہ ملک میں اس کے خلاف کوئی آزادی کی تحریک نہ اٹھنے پائے اور نہ ہی منظم ہونے پائے‘ ابھی تک لاگو ہیں۔ جن میں سیفٹی ایکٹ‘ سیفٹی آرڈیننس‘ فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز‘۱۸۱۸ء کے بنگال ریگولیشن تھرڈ اور ایسے دوسرے جابرانہ قوانین کے ذریعے شہری آزادیاں ختم کرکے رکھ دی گئی ہیں۔ برسراقتدار لیڈر خود اپنی قوم کے خلاف جبر کے یہ ہتھکنڈے محض اس لیے استعمال کررہے ہیں کہ یہ قوم کبھی اپنے لیڈر تبدیل کرنے کے قابل نہ ہوسکے‘ تاکہ قوم ان کے بجائے دوسروں کو لانے کے قابل نہ رہے اور اگر چاہے بھی تو انہیں نہ اتار سکے۔
(جاری ہے)