وفاقی کابینہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی منظوری دے دی ہے ۔ساتھ ہی ان کمپنیوں کی نجکاری کے لیے درکار لوازمات کو بہ سرعت پورا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے ۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے لیے دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس سے سرکاری شعبے میں قائم اداروں میں ہونے والی چوری ختم ہوگی اور عوام کو جدید سہولتیں مہیا کی جائیں گی ۔ نجی شعبے میں ہونے کی بناء پر بجلی فیل ہونے کے واقعات کم ہوں گے اور اگر کہیں بریک ڈاؤن ہوا بھی تو اس کی فوری مرمت کردی جائے گی ۔ یہ ساری کتابی باتیں ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ جب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کی جارہی تھی ، اس وقت بھی ایسے ہی دلائل پیش کیے گئے تھے ۔ کہا گیا تھا کہ کراچی میں بجلی کی کھپت بڑھ رہی ہے ، نئی انتظامیہ بجلی کی پیداوار بڑھائے گی ، ترسیل کا نظام جدید کرے گی اور اب کراچی کے باسیوں کو بجلی بلا تعطل ملا کرے گی ۔ کے ای ایس سی کی نجکاری سے صرف یہ ہوا کہ اس کا نام تبدیل ہوکر کے الیکٹرک ہوگیا ۔ اس کے بعد یہ کے الیکٹرک ایک ایسے عفریت کا روپ دھار گئی جس کے قابو میں عدلیہ بھی ہے اور سرکار بھی ۔ بجلی کی ترسیل کا نظام تو کیا جدید بنایا جاتا ، الٹا پورے شہر سے تانبے کے تار اتار کر بیچ دیے گئے اور ان کی جگہ المونیم کے تار لگادیے گئے جو ذرا سی بھی حدت پر شارٹ سرکٹ کرجاتے ہیں اور کسی بھی دن شہر میں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے ۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ کے الیکٹرک نے ریموٹ کنٹرول میٹر نصب کیے ہوئے ہیں ، جن کی ریڈنگ آفس سے ازخود بڑھادی جاتی ہے ۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی انتظامیہ کی جانب سے زاید یونٹ کی بلنگ کی ای میل پر اسٹاف کو ہدایت بھی ریکارڈ پر موجود ہے ۔ کے الیکٹرک بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں تو کیا اضافہ کرتی ، یہ موجودہ استعداد پر ہی اپنے بجلی گھر نہیں چلارہی ۔ واپڈا سے سستی بجلی لے کر کراچی کے شہریوں کو مہنگی بجلی فروخت کرتی ہے ۔ سوئی سدرن گیس اور پی ایس او سے جتنا ادھار ایندھن ملے ، بس اس سے ہی بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد کراچی کے شہری شدید گرمی میں 8 تا 12 گھنٹے کی روز لوڈ شیڈنگ بھگتتے ہیں ۔ کے الیکٹرک کی مہنگی بجلی اور اوور بلنگ نے کراچی کی صنعتوں اور کاروبار کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ کے الیکٹرک اتنی مضبوط مافیا کا روپ دھار چکی ہے کہ اس کے خلاف کراچی کی سڑکوں پر مظاہرے کرنے کی کوشش کی جاتی تو پہلے ایم کیو ایم کی فورس ان مظاہرین پر ٹوٹ پڑتی تھی اور اب یہی منصب کراچی میں تحریک انصاف نے سنبھال لیا ہے ۔ اس کے خلاف مین اسٹریم میڈیا میں بھی سب کچھ سنسر کردیا جاتا ہے ۔ محتسب کا ادارہ بھی بے بس ہے اور سرکار کو تو باقاعدہ کے الیکٹرک نے خریدا ہوا ہے ۔ کے الیکٹرک کے اس ماڈل کے باوجود بھی اگر وفاقی کابینہ پورے پاکستان کی بجلی کی بقیہ تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری میں نہ صرف دلچسپی رکھتی ہے بلکہ اس میں سرعت بھی چاہتی ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ حکومت نے پورے ملک کو بینکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اگر حکومت کے زیر انتظام اداروں کا نظام درست نہیں چل رہا ہے اور وہاں پر چور بازاری ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادارے ناکام ہوگئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے ۔ جو حکومت ایک ادارہ نہیں چلاسکتی وہ پورے ملک کو کیسے درست طریقے سے چلاسکتی ہے ۔ اگر بجلی کے تقسیم کار ادارے بجلی کی ترسیل میں جدید نظام نہیں لاسکے ہیں تو یہ بھی حکومت ہی کی نااہلی ہوئی ۔ ایسے میں درست فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ حکومت تبدیل کی جائے جو اپنے بنیادی کام یعنی اداروں کو بہترین طریقے سے چلانے سے معذور ہے ۔ اگر نجکاری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کل کلاں پولیس کے محکمے کو بھی آؤٹ سورس کردیا جائے گا اور کسی بلیک واٹر کو ذمہ داری دے دی جائے گی کہ وہ ملک میں چوری چکاری اور دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے نام پر پاکستانیوں کی گردن پر مسلط ہوجائے ۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر فوج کا محکمہ ہی ختم کردیا جائے کہ لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپیں ان کے قابو میں نہیں آرہیں ، اس لیے اب ملک کی سرحدوں کی حفاظت امریکی کنٹریکٹر کریں گے ۔ جناب عمران خان! ہر چیز کو فروخت کرنا یا اسے نجی شعبے کے حوالے کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔آپ حکومت کی نااہلی کی سزا شہریوں کو نہ دیں ۔ بہتر ہوگا کہ جن اداروں کی نجکاری کردی گئی ہے ، وہاں پر احتساب کے عمل کو موثر کریں ۔ کے الیکٹرک نے او ور بلنگ کرکے جو سیکٹروں ارب روپے کی لوٹ مار کی ہے ، وہ اس سے واپس لی جائے ۔ کے الیکٹرک کو مجبور کیا جائے کہ بجلی گھروں کی پوری استعداد کے مطابق بجلی پیدا کی جائے اور کراچی میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے ۔ کراچی کے شہریوں سے ہر ماہ اربوں روپے ٹیکس کے ضمن میں وصول کرکے کے الیکٹرک خود ہڑپ کرجاتی ہے ، وہ اس سے نکلوائے جائیں ۔ کے الیکٹرک کی نجکاری کو ختم کیا جائے نہ کہ دیگر ادارے بھی ایسے ہی لوگوں کے حوالے کردیے جائیں ۔ ایسے عقل سے عاری اور ملک دشمن فیصلے کرنے پر وفاقی کابینہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے ۔کیا وفاقی کابینہ میں ایک بھی وزیر ایسا نہیں ہے جسے ملک سے محبت ہو اور وہ معاملات کو سمجھتا بھی ہو ۔ اگر وفاقی کابینہ میں سارے کے سارے ہی کٹھ پتلی بیٹھے ہیں تو پھر ہمیں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہیے ۔