ٹرمپ شمالی کوریا اور پاکستان

686

پاکستان اور شمالی کوریا کے موجودہ حالات میں کئی مشترکات ہیں۔ دونوں چین کے قریبی اتحادی ہیں۔ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، دونوں اپنے پڑوسی ملکوں جنوبی کوریا اور بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتے ہیں دونوں کے جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں سے پڑوسی ملک خوف کھاتے ہیں اور وہ یہ خوف امریکا تک منتقل کرچکے ہیں۔ امریکا دونوں کے جوہری ہتھیاروں کے پیچھے پڑا ہوا ہے شمالی کوریا پر تو براہ راست دبائو آچکا ہے مگر پاکستان کو حیلوں بہانوں سے دبائو میں لانے کی کوششیں عرصہ ٔ دراز سے جاری ہیں۔ دونوں کے مخالف ہمسائے امریکا کے قریبی اتحادی ہیں۔ دونوں کے سربراہ عمران خان اور کم جونگ ان ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹویٹر لڑائی میں ترکی بہ ترکی جواب دے چکے ہیں اور اب یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ دونوں کے ساتھ صلح کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں، شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے ساتھ ٹرمپ کے جنوبی کوریا کی سرحد پر مصافحہ کرکے تعلقات کی منجمد برف پگھلانے کی کوشش کی ہے۔
کہا گیا کہ ٹرمپ امریکا کے پہلے صدر ہیں جنہیں شمالی کوریا کی سرحد پر قدم رکھ کر کم جونگ ان سے مصافحہ کا اعزار حاصل ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے اس مصافحے کو ٹرمپ کے سیاسی تھیٹر سے تعبیر کیا ہے۔ گویاکہ ٹرمپ نے پہلے امریکی صدر کا ’’اعزاز‘‘ اور انفرادیت پانے کے لیے اس طرز کی ملاقات کو اختیار کیا۔ عملی طور پر اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ وہیں ایک اور رائے یہ بھی موجود ہے کہ اس مصافحے سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر بہتر اثر پڑے گا اور مستقبل میں کامیاب بات چیت کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس ملاقات کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں راہنمائوں نے ترپن منٹ تک تنہائی میں بات چیت کی۔ ملاقات کے بعد ٹرمپ کا کہنا تھا کہ معاملات طے ہونے کی رفتار اہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ ڈیل کیا ہوتی ہے۔ کم جونگ ان نے بھی ٹرمپ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ٹرمپ سے اس مقام پر اس انداز میں ملاقات ہوگی۔ دونوں کے لیے یہ ملاقات سمجھنے سمجھانے کا ایک اور موقع ہے۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے ہی ماہ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کو انتہا پر پہنچا دیا تھا یوں لگتا تھا کہ وہ شمالی کوریا کو موجودہ حیثیت اور ہیئت میں ایک لمحہ بھی قبول نہیں کریں گے مگر جلد ہی ایک بڑ ا سا یوٹرن لے کر وہ شمالی کوریا کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کرکے آگے بڑھنے لگے۔ دونوں کے درمیان ایک ناتمام اور بے نتیجہ سی ملاقات پہلے بھی ہو چکی تھی مگر شمالی کوریا کی سرزمین پر ڈی ملٹرائزڈ زون میں پیدل سرحد عبور کرکے ہونے والی یہ ملاقات قطعی مختلف ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بھی رواں ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا سدھار رہے ہیں۔ اس دورے سے پہلے امریکا نے دونوں راہنمائوں کے درمیان ٹویٹر چھیڑ چھاڑ ہو چکی ہے۔ یہی نہیں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطحوں پر کشیدگی کے مختلف ادوار جاری ہیں۔ عالمی اور علاقائی سطح پر دونوں ملکوں کے مفادات کی گاڑیاں متوازی کے بجائے متضاد سمتوں کی طرف چل رہی ہیں۔ اس لیے دونوں کے درمیان نقطہ اتصال قائم کرنے اور تلاش کرنے میں بہت مشکل پیش آرہی ہے۔ امریکا علاقے میں جس بات کو اپنے قلیل اور طویل مدتی مفادات کے حق میں جان چکا ہے وہ پاکستان کی سلامتی کے معاملات سے مطابقت نہیں رکھتے اس لیے تعلقات میں مستقل کھینچاتانی اور کشیدگی جاری ہے۔ ان حالات میں عمران خان کا دورہ بہت زیادہ مثبت نتائج کا حامل ہوگا اس کا امکان کم ہے۔ ٹرمپ عمران خان کو دبائو میں لانے کے لیے ڈومور کی گردان جاری رکھیں گے اور پاکستان کو بھارت پالیسی میں تبدیلی لانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ماضی میں یہ واردات پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہو چکی ہے جنہیں بش دوم نے شنگریلا کے تفریحی مقام پر ملاقات کے لیے بلایا اور ایک زوردار پریس کانفرنس میں تعلقات کی خوشگواریت کا تاثر دیا۔ شنگریلا کی اس جنت سے مشرف لوٹ آئے مگر اس سے پاکستان ایک عدم استحکام کا شکار ہونا شروع ہوا اور شنگریلا کا یہی دورہ اپنی سرزمین پر جنرل مشرف کے لیے طاقت کے بجائے کمزوری کی بنیاد اور علامت بن گیا کیوںکہ اس وقت امریکا اور پاکستان کے تعلقات بتدریج ابتری کی طرف بڑھ رہے تھے دونوں کے ریاستی مفاد اور اسٹیبلشمنٹ کے رجحانات میں گہرا تضاد پیدا ہو چکا تھا۔ پاکستان کے کسی حکمران کا امریکا کے ساتھ کلی بریکٹ ہونا امریکا میں تو فائدہ مند تھا مگر پاکستان میں یہ ’’مشکوک‘‘ بن جانے کی سند تھی۔
ٹرمپ اپنی سیاسی ضرورتوں کی خاطر اور اگلا صدارتی الیکشن جیتنے کی خواہش میں تھیٹر سجارہے ہیں پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر اس کھیل کا حصہ بننا چاہیے۔ عمران خان ٹرمپ کو گھر سے جانتے ہیں اس کا ثبوت اسی یا نوے کی دہائی کی ایک یادگار تصویر ہے جس میں وہ ایک شہرہ آفاق کرکٹر کی حیثیت میں کھڑے ہیں اور دو امریکی خواتین ان سے ملاقات میں تصویر بنوانے کی خواہش پوری کر رہی ہیں یہ خواتین ٹرمپ کی بیوی اور ساس ہیں۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ عمران خان ٹرمپ سے دبنے کے بجائے پاکستان کے مفادات کا مقدمہ اعتماد سے لڑیں گے۔ بھارت کا ذکر آیا تو اس کی خونیں شرارتوں اور کشمیر کی بات کریں گے۔ افغانستان میں محفوظ راستے کے بدلے امریکا سے اچھی سودے بازی کرتے ہوئے بدلے میں کچھ منوائیں گے۔