کراچی کو نعمت اللہ اور افغانی دو

1015

 

 

اسے کہتے ہیں تماشا۔35 برس کراچی پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والی ایم کیو ایم آج کراچی کو پانی دو ، کراچی کو جینے دو کے نعرے لگا رہی ہے ۔ اس پر واہ واہ کریں یا آہ، آہ … سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ویسے دل تو چاہتا ہے کہ ہائے ہائے کیا جائے … کیونکہ میڈیا اور حکومت سندھ کی ملی بھگت سے عوام کو یہی باورکرایا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہے ۔ حکومت کا بیانیہ یہ ہے کہ شور مچا رہی ہے ۔لیکن در حقیقت یہ چور مچائے شور والا معاملہ ہے ۔ بلدیہ کراچی میں میئر فاروق ستار رہے ، مصطفی کمال سٹی ناظم رہے ۔ مسلسل حکومت سندھ کا حصہ ایم کیو ایم رہی وزارت بلدیات خصوصی طور پر لیتے رہے۔ یہاں تک کہ نعمت اللہ خان کے دور نظامت میں بھی صوبائی گورنر اور حکو مت نے کراچی کے ترقیاتی کاموں میں روڑے اٹکائے ۔ افغانی صاحب کی بلدیہ ختم کروائی گئی ۔ سلیکٹڈ میئر فاروق ستار لائے گئے ۔ سلیکٹڈ پارٹی ایم کیو ایم کو پہلے بلدیہ پھر سندھ حکومت میں کلیدی رول دیا گیا ۔ سلیکٹڈ گورنر کو جنرل پرویزمشرف تلاش کر کے لائے ۔ کیونکہ وہ اپنے اقتدار کے چکر میں کراچی پر توجہ نہیں دے سکے تھے اور بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی نے جیت لیے تھے ان کو اقتدار سے باہر کرنا ضروری تھا ۔ اس کے لیے سلیکٹڈ ایم کیو ایم کو پانچ سال انتظار کرنا پڑا اور جب پانچسالہ ترقیاتی کارناموں کے ساتھ نعمت اللہ خان کا دور ختم ہوا تو محکمۂ زراعت نے زبر دست کارنامے دکھائے جو یو سی ناظم شام کوجیت گیا تھا صبح اس کی شکست کا اعلان ہو گیا ۔ 4500ووٹوں والے کو450ووٹ کر دیاگیا اور 450 والے کے 4500ووٹ ہو گئے ۔ راتوں رات نتائج تبدیل ہوئے اور سلیکٹڈ ناظم مصطفی کمال آ گئے اور وہ کمال دکھایا کہ اہل کراچی کے 14 طبق روشن ہو گئے ۔
سلیکٹڈ سٹی ناظم نے کمال کیا 30 ارب روپے زمین میں دفن کر دیے ۔ جی ہاں انہوں نے یہی فرمایا تھا کہ 30 ارب روپے سے زیادہ زیر زمین سروسز میں لگا رہے ہیں ۔ لیکن جب بارش آئی تو زیر زمین تمام خزانے شہر کی سڑکوں اورگلیوںمیں ابلنے لگے ۔ کلفٹن ، ڈیفنس ، بوٹ ،بیسن ڈوب گئے ، تمام انڈر پاس نہروں کا منظر پیش کرنے لگے ، کیفے پیالہ کے پاس ایک گاڑی میں سوارمیاںبیوی اور
بیٹی گاڑی سمیت نالے میں گئے اور غائب ہو گئے ۔ شاہراہ فیصل پر کالج کی لڑکیاں پانی میںبہ کر نالوں میں پھنس گئیں ۔ نر سری میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا ، دکانیں ڈوب گئیں لیکن سلیکٹڈ سٹی ناظم شرم سے نہیں ڈوبا ۔ اسی سلیکٹڈ پارٹی نے نعمت اللہ خان کی جانب سے شروع کرائے گئے منصوبے تباہ کرنا شروع کیے ۔ نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے 2900 ملین روپے کا ماسٹر پلان پیش کیا جس میں18فلائی اوور ،6انڈر پاس ، 2 سگنل فری کوریڈور پانی کی فراہمی کا نظام ، سیوریج، 200 سی این جی بسیں ، فیملی پارکس کا جال ، ہر یو سی کو الگ فنڈز کی فراہمی وغیرہ شامل تھے۔ پھر سلیکٹڈسٹی ناظم نے پارکوں کی چائنا کٹنگ کر دی ۔ آج کراچی کے پارک غائب ہو گئے ۔پانی کے منصوبوں کو پہلے ایم کیو ایم نے نعمت اللہ خان کی وجہ سے رکوایا پھر پی پی نے ایم کیو ایم کی وجہ سے رکوایا ۔ اگر شروع میں ہی منصوبے پرعمل ہونے دیتے تو کراچی کو پانی ملتا ، لیکن کریڈٹ کی دوڑ نے کراچی کو محروم کر دیا ۔اب حکومت سندھ اور وفاق کی ترجیحات میں کراچی کا پانی ہے ہی نہیں ۔کراچی سے کچرا اٹھانے کامنصوبہ بھی ایم کیو ایم نے ختم کرایا ۔ دو سو گرین بسیں سلیکٹڈ پارٹی نے شہر کے باہر پھنکوا دیں اور چنگچی اوررکشے شہر بھر میں پھیلا دیے ۔ چائنا کٹنگ کو ناجائز پانی کنکشن دیے گئے اور با قاعدہ آبادیوں کو محروم کر دیا گیا ۔ پھر تو جگہ جگہ چوری شروع ہو گئی ۔ لائن مین والو مین بھرتی کیے گئے ۔پانی چوری کا نظام سلیکٹڈ ایم کیو ایم کا دیا ہوا ہے ۔اس کو ٹھیک کرنا پیپلز پارٹی اور برکی پر تھپڑوں کی بارش کرنے والی پی ٹی آئی کے بس کی بات نہیں۔ کراچی کو پھر نعمت اللہ اور افغانی چاہییں ۔ یہ جو ایم کیو ایم نعرے لکھ رہی ہے کراچی کو پانی دو… ہم کہتے ہیں کراچی کو نعمت اللہ اور افغانی دو … یہی لوگ اس کراچی کو دوبارہ روشن اور آباد کر سکتے ہیں ۔جب نعمت اللہ خان نے نظامت سنبھالی … بلکہ سٹی گورنمنٹ کا نظام شروع کیا اور چلایا تو کراچی کا یہی حال تھا جو آج ہے… اور یہ حال کس نے کیا تھا اس وقت کے سلیکٹڈ میئر اور نعرہ یہی لگا رہے ہیں کراچی کو پانی دو ۔ اے بھائی تم لوگ تو رہنے ہی دو … کراچی کو معاف کرو… اس میڈیا میں موجودکراچی دشمن لوگوں نے کراچی کو تباہ کرنے والوں کی خوب پذیرائی کی ہے ۔ انہیںمینڈیٹ والا کہا جاتا ہے اورمینڈیٹ کی حقیقت یہ بھی خوب جانتے ہیں۔ موجودہ سلیکٹڈ میئر بھی اسی طرح مینڈیٹ لائے ہیں جس طرح پہلے لائے تھے ۔ انہوں نے چار سال صرف اختیار مانگنے میں گزاردیے ۔ پانی دیا ، نہ کچرا اٹھایا ، نہ صفائی کی ، سڑکیں تباہ ، پارک ویران چائنا کٹنگ ، ان سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کو چھوڑ دو۔