ماتحت نظام کے تحت پورے ملک کو جماعتی تنظیم کے لحاظ سے دس حلقوں میں تقسیم کیا گیا : حلقہ لاہور‘ حلقہ گوجرانوالہ (گجرات‘ شیخوپورہ‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ) حلقہ راولپنڈی (راولپنڈی‘ اٹک اور جہلم) حلقہ لائل پور یعنی فیصل آباد (لائل پور‘ جھنگ‘ سرگودھا اور میانوالی) حلقہ ملتان (ملتان‘ منٹگمری یعنی ساہیوال‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان) حلقہ سرحد (صوبہ سرحد‘سرحدی ریاستیں اور قبائلی علاقے) حلقہ بہاولپور (پوری ریاست بہاولپور) حلقہ سندھ (کراچی‘ بالائی سندھ‘ نہریں سندھ) حلقہ مشرقی پاکستان اور حلقہ بلوچستان۔
ارکان اور جماعتوں کی تعداد
یکم ؍مارچ ۱۹۴۹ء کو جماعت کے ارکان کی تعداد ۵۲۰ تھی۔ مقامی جماعتیں ۷۴ اور منفرد ارکان کی تعداد ۱۰۹ تھی۔ اس رپورٹ کو پیش کرتے وقت ارکان کی تعداد ۶۶۱تھی۔
۳۱؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء تک ارکان کی تعداد میں ۲۴۲ کا اضافہ ہوا اور ۱۰۱ کی کمی ہوئی‘ کل اضافہ ۱۴۱ ؍ارکان کا ہوا۔ ۸۰ مقامی جماعتیں اور ۱۷۰ منفرد ارکان تھے۔اس دوران میں جماعت کے ارکان میں ۱۰۱ کی کمی کی تفصیل یہ ہے:
۹ ارکان کا انتقال ہوگیا۔۲ پاکستان سے باہر چلے گئے۔ ۳۹ جماعتی کارکردگی اور مطلوبہ نظم کی کمی پر رکنیت سے خود علیحدہ ہوئے یا الگ کردیا گیا۔ ۴۵ کو سیرت و کردار کی کمزوری پر تادیباً یا ان کی خود کی درخواست پر الگ کیا گیا۔ ۶ افراد اختلاف کے باعث علیحدہ ہوئے۔ الگ ہونے والے ۱۰۱ میں سے ۵ کو ان کی اپنی درخواست پردوبارہ جماعت میں لے لیا گیا۔ کل پاکستان میں‘ حلقہ سرحد میں اراکین کی تعداد (۹۶)‘ حلقہ ملتان میں (۹۶)‘ حلقہ سندھ مغربی کراچی (۹۱)‘ لاہور (۸۸)‘ لائل پور (۸۶) ‘ بہاولپور (۶۷)‘ گوجرانوالہ (۶۲)‘ راولپنڈی (۵۷) مشرقی پاکستان (۱۲)‘ بلوچستان (۴) اور آزاد کشمیر میں یہ تعداد (۲) تھی۔
اس رپورٹ کے وقت متفقین کے کل حلقے ۱۵۳ اور ان میں کارکنان کی کل تعداد ۲۹۱۳ تھی۔
تبلیغ و اشاعت کا کام
جماعت کے مرکزی شعبہ‘ نشرو اشاعت اور ماتحت مراکز کی طرف سے اس مدت کے دوران تقریباً سوا تین لاکھ پمفلٹ دو ورقے اور پوسٹر طبع ہوکر شائع ہوئے۔ ۶۷ مقامات پر درس قرآن کا انتظام کیا گیا‘ ۷۰ مقامات پر جماعت کے ارکان یا ہم خیال خطیب‘ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ ۸۵ مقامات پر جماعت کے دارالمطالعے قائم تھے اور ۶۷ مقامات پر جماعت کے لٹریچر کی فراہمی اور فروخت کا معقول انتظام کیا گیا۔
جماعت کے ہمہ وقتی کارکنوں کی تعداد ۴۸ تھی‘ جن میں سے آٹھ مرکز میں‘پانچ دارالعروبہ میں اورباقی ۳۵ مختلف حلقوں میں اور اضلاع میں مصروف کار تھے۔
جماعت کے نئے دستور کی تیاری
جماعت کا پہلا دستور اگست ۱۹۴۱ء میں غیر منقسم ہندوستان پر ایک غیر ملکی غیر مسلم تسلط کے حالات کے لحاظ سے مرتب کیا گیا تھا۔۱۴؍اگست کو ہندوستان کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی ہند اور پاکستان الگ الگ ہوگئیں۔ پاکستان میں جماعتی نظام یہاں کے حالات کے مطابق تبدیلی کا متقاضی ہوگیا۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ جون ۱۹۵۰ء میں موجودہ ضروریات کے مطابق نئے دستور کے مسودے کی تیاری کا کام ایک ذیلی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ مجلس شوریٰ کی ہدایت کے مطابق دستور کا مسودہ مرتب کرلیا گیا اور اس اجتماع کے اجلاس میں اس پر بقیہ کارروائی مکمل کرنا طے پایا۔
دارالعروبہ
مولانا مسعود عالم صاحبؒ ندوی کی نگرانی و رہنمائی میں دارالعروبہ راولپنڈی جماعت کے لٹریچر کو عربی زبان میں منتقل کرنے اور عربی زبان میں براہ راست نئے دعوتی لٹریچر کی تیاری کے کام کو بخیر و خوبی سرانجام دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ عربی میں لٹریچر کی اشاعت کا بندوبست اور دعوت سے متاثر افراد کو اقامت دین کی جدوجہد پر مائل کرنا بھی دارالعروبہ کے ذمے کاموں میں سے تھا۔ اب تک جماعت کے لٹریچر کے آٹھ کتابچے عربی میں منتقل کرلیے گئے ۔رسالہ دینیات زیر ترجمہ تھی۔ عربی میں نئے لٹریچر کے دو کتابچے شائع ہوچکے تھے۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ کی عربی تصنیف ’تاریخ‘ الدعوۃ الاسلامیہ فی الہند و باکستان‘ جو ۳۵۰ صفحات کی کتاب ہے مکمل ہوکر مصر میں چھپنے کے لیے بھیج دی گئی۔
عرب اورافریقہ میں جماعت کا لٹریچر
۱۹۴۹ء میںمولانا مسعود عالم ندویؒ اور ان کے مددگار محمد عاصم الحداد نے اپنے سفر حج کے سلسلے میں عراق اور نجد و حجاز کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں شام‘ مصر‘ سوڈان‘ ترکی‘ انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک کے علماء اور اہل علم حضرات سے رابطہ ہوا۔ عربی لٹریچر کے ۵۰ سیٹ مختلف ممالک کے علماء اور دیگر اہم اہل علم لوگوں کو پیش کئے گئے۔کراچی میں منعقدہ موتمر عالم اسلامی کے اجلاس کے موقع پر تمام مندوبین کی خدمت میں عربی اور انگریزی لٹریچر پیش کیا گیا اور مفتی اعظم فلسطین کے اعزاز میں ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا‘ جس میں دوسرے مندوبین کو بھی مدعو کیا گیا۔
مصر میں الاخوان المسلمون ہمارے لٹریچر کو سرگرمی سے پھیلارہے ہیں اور ان کے ساتھ طے پاگیا ہے کہ آئندہ ہمارا سارا عربی لٹریچر مصر میں ہی طبع ہوکر شائع ہوگا۔ اس نظام کے تحت کچھ لٹریچر شائع ہوچکا ہے اور تیزی سے تقسیم ہورہا ہے۔ چند ماہ کے اندر ’دین حق‘ کے چار ہزار اور ’سیاسی نظریہ‘ کے دو ہزار نسخے طبع ہوکر نکل چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کو قاہرہ سے جماعت کے لٹریچر کی فرانسیسی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمے کی اجازت بھی ان کی خواہش پر دے دی گئی ہے۔
عراق ‘شام‘ لبنان‘ سعودی عرب اور شمالی افریقہ جماعت کا لٹریچر جاتا رہا ہے اور وہاں لوگوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور بعض نے وہاں طباعت کی اجازت بھی مانگی۔ ہماری کتابوں پر تبصرے بھی شائع ہوئے۔ لٹریچر کا دائرہ تقسیم مسلسل پھیل رہا ہے۔ الجزائر‘ تیونس‘ مراکش میں عربی کتب جارہی ہیں۔ مراکش کے مشہور دینی رسالے ’لسان الدین‘ میں ہماری کتابوں پر تبصرے بھی شائع ہوئے ۔ ترکی میں بھی لٹریچر پہنچایا گیا۔ حج کے موقع پر ایک ترکی عالم لٹریچر کا پورا سیٹ ترکی میں ترجمے کے لیے لے گئے ۔ انڈونیشیا میں بھی ہمارے دو باقاعدہ ہمدرد موجود تھے‘جہاں ترجمے کا کام شروع ہوگیا ۔ ایک دو رسالوں کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ملایا(ملائیشیا) کی مقامی زبان میں ’نظریہ سیاسی‘ کا ترجمہ شائع ہوا اور مقبول ہوا۔ وہاں کے ایک رسالے ’مشارکت‘ نے دو کتابچوں ’معاشی مسئلہ‘ اور ’اسلامی حکومت‘ کے ترجمے کی اجازت مانگی تھی‘ جو دے دی گئی۔
(جاری ہے)