چین ، منگولیا اور ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے جمہوریت پسندوں نے گروپ 20 کے اجلاس میں شریک سربراہان مملکت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین میں انسانی حقوق کے سلسلے میں چینی صدر پر اپنا دباؤ بڑھائیں ۔ ان کارکنان نے اجلاس میں چینی صدر کے خطاب کے موقع پر مظاہرے کا بھی پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ چین میں جس طرح سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ ایک عام چینی تو اس سے اتنا شاید متاثر نہ ہو مگر چین کے جنوبی صوبہ سنکیانگ کے مسلمان جس طرح سے دار و رسن کا سامنا کررہے ہیں ، اس پر دنیا میں کہیں بھی کوئی آواز بلند نہیں کی جارہی۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کا صرف ایک جرم ہے اور وہ ہے مسلمان ہونا۔ دس لاکھ سے زاید افراد کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے جہاں پر انہیں مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ انہیں حرام کھلایا اور پلایا جارہا ہے ۔ خواتین کو طبی مراکز میں بانجھ کیا جارہا ہے اور دنیا میں کوئی اس کا نوٹس بھی لینے کو تیار نہیں ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں بین الاقوامی اسلامی تنظیموں کو متحرک ہونا چاہیے اور جس طرح سے چینی صدر پر جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ، اسی طرح مسلمانوں کو ان کے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دینے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جانا چاہیے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ چینی صدر اور دیگر حکام کے آئندہ دوروں کے موقع پر مسلم تنظیمیں مظاہرہ کریں اور دیگر ممالک سے کہیں کہ وہ چینی صدر پر دباؤ ڈالیں کہ چینی مسلمانوں کے انسانی حقوق بحال کیے جائیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ مسلم سربراہان جو چین کا دورہ کرتے ہیں ، ان کے ایجنڈے میں بھی کہیں پر چینی مسلمان نہیں ہوتے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چینی مسلمانوں کو چین کی کمیونسٹ حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو پہل کرنا چاہیے اور دیگر برادر اسلامی ممالک کی ہم خیال اسلامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ چینی مسلمانوں کی داد رسی کے لیے کوئی منظم اور موثر تحریک شروع کی جاسکے ۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو پوری مسلم امہ کو ایک ایک کرکے شکار کرلیا جائے گا ۔ ابھی میانمار، چین ، فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کو چن چن کر شکار کیا جارہا ہے تو کل یہ آگ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور پاکستان تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔