اسلام آباد: اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر احمد حسن مغل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ منی بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس لگانے سے گریز کیا جائے کیونکہ صنعت و تجارت سمیت موجودہ ٹیکس دہندگان پر پہلے ہی بھاری ٹیکس عائد ہیں اور ان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا گیا تو ان کے ساتھ زیادتی ہو گی اور ملک میں ٹیکس کلچر کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ستمبر میں پہلا منی بجٹ پیش کیا تھا اور اب حکومت ٹیکس ریونیو کو بہتر کرنے اور مالی خسارے کو کم کرنے کیلئے جنوری میں دوسرا منی بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ نئے منی بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہنگان پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے حتی المقدور گریز کرے اور ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دے کر ٹیکس ریونیو کو بہتر کرنے کی کوشش کرے۔
احمد حسن مغل نے کہا کہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے دعوے کرنے کے باوجود گذشتہ حکومتیں ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے میں ناکام رہی ہیں جس وجہ سے ملک کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہو چکی ہے لیکن اکتوبر 2018تک ایف بی آر کو اطلاعا انکم ٹیکس کے صرف 4لاکھ82ہزار 275 گوشوارے موصول ہوئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس صورتحال کا خمیازہ موجودہ ٹیکس دہندگان کو زیادہ ٹیکس دینے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
آئی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ایک ورکنگ پیپر کے مطابق 2016میں پاکستان کا ٹیکس ریونیو گیپ اس کی مجموعی قومی پیداوار کے 10فیصد کے برابر تھا جو تقریبا 28ارب ڈالر تھا جبکہ پاکستان ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دے کر مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح کو دگنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس ریونیو کو جمع کرنے کے شعبوں کو الگ کر کے ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت موجودہ ٹیکس دہندگان کے مفادات کا بہتر تحفظ کرے اور ٹیکس ریونیو کو بہتر کرنے کیلئے ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر توجہ دے جس سے معیشت کو فائدہ ہو گا۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر رافعت فرید اور نائب صدر افتخار انور سیٹھی نے کہا کہ جب تک ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں لئے جاتے پاکستان بیرونی قرضوں پر انحصار کرتا رہے گا جو کسی بھی لحاظ سے ملک کیلئے فائدہ مند نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ نئی ٹیکس پالیسی تشکیل دے جس میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے اور موجودہ ٹیکس دہندگان کے حقوق کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے جس سے نہ صرف پاکستان کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو گا اور مالی وسائل بہتر ہوں گے بلکہ ملک میں ٹیکس کلچر کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور معیشت مستحکم ہو گی۔