مصنوعی ذہانت کے لیے ایک نیا سال

449

مصنوعی ذہانت کل کو کہاں تک پہنچنے والی ہے، اس بارے میں کوئی بھی رائے دینا ممکن نہیں، مگر مصنوعی ذہانت کے انسانوں پر اثرات کا مستقبل کیا ہو گا، اس بارے میں اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ مصنوعی ذہانت آئندہ برس کہاں تک پہنچنے والی ہے؟ اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی جا سکتی۔ فقط یہی کچھ کہا جا سکتا ہے کہ اب مشینوں کو کام کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور مستقبل میں اسی طرح کی مشینیں ہمارے سامنے آتی جائیں گی۔ اس کی وجہ اسمارٹ اسپیکرز اور مصنوعی ذہانت کے حامل صوتی معاونت سے چلنے والے آلات بھی ہیں۔ چند رز قبل آپ کو ایمازون ایکو ڈاٹ کے اشتہارات ضرور دکھائی دیے ہوں گے۔ صوتی معاونت سے چلنے والے یہ مصنوعی ذہانت کے حامل آلات کی ایک مثال ہے، جو اب عام صارفین کو دستیاب ہیں۔ آپ اس آلے کو ’الیکسا‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، سو آپ کہتے ہیں، ’الیکسا بتیاں جلا دیجیے‘ اور ’الیکسا‘ خودکار طریقے سے آپ کا حکم بجا لاتی ہے۔ مگر کمپیوٹرز کو مبہم منطق سمجھ نہیں آتی۔ یہ بائنری نظام کے حامل ہوتے ہیں اور گفتگو کے دوران عام حالات میں ’ہممم‘ اور ’آآآ‘ جیسے معاملات ان کی سمجھ سے باہر ہیں یا آپ ان سے گفتگو میں زیادہ وقت نہیں لے سکتے۔ انہیں واضح اور دو ٹوک انداز کی ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے۔
مستقبل میں آپ کو اور بھی زیادہ آلات دکھائی دیں گے، جو اسی انداز سے کام کیا کریں گے۔ آپ ایمازون کے مداح ہیں، یا گوگل، ایپل، سام سنگ، بائیڈو، مائیکروسافٹ یا ڈِنگ ڈانگ کو فوقیت دیتے ہیں، یہ آلات جلد ہی آپ کے گھروں کا لازمی حصہ بننے والے ہیں۔ نومبر میں جرمن حکومت نے بھی ایک نیا پالیسی پیپر شائع کیا ہے، جس میں سب سے زیادہ ترجیح ’میڈ اِن جرمنی مصنوعی ذہانت‘ کو دی گئی ہے اور 2019ء میں اسے ایک بین الاقوامی برانڈ کی طرح پیش کیا جائے گا۔ دو برس قبل برطانیہ بھی اس سلسلے میں اپنی پالیسی دے چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بعد ہماری زندگی کیا ہو گی؟ ماضی میں ہم چاہتے تھے کہ دنیا کے سارے کام ہماری انگلیوں کے اشاروں پر ہونے لگیں، مگر اب حالت یہ ہے کہ ہم انگلی سے بٹن تک دبانا نہیں چاہتے اور معاملہ صوتی معاون کے سپرد کر دیا ہے۔ یونیورسٹی آف ویروِک کے سائنس دان اب سینتھیٹک بائیولوجی کے شعبے میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جگنو کے جین کا استعمال کر کے ایسے درخت پیدا کیے جائیں، جو خود ہی روشن ہو جایا کریں۔ جگنو اپنے جسم کو ایک کیمیائی تعامل کے ذریعے روشن کرتے ہیں، جسے بائیولیومینینس کہتے ہیں۔ سائنس دان اس کے ذریعے ایک سینتھیٹک ڈی این اے تیار کرنا چاہتے ہیں، جو ان درختوں میں منتقل کیا جائے گا اور پھر فطرت کا ’باڈی کلاک‘ باقی کام خود دیکھ لے گا، یعنی جوں ہی اندھیرا ہو گا، یہ درخت خود ہی روشن ہو جایا کریں گے۔ یعنی کچھ عرصے بعد آپ کو ’الیکسا‘ کو بھی نہیں کہنا پڑے گا کہ بتیاں جلا دو۔
اسی طرح مصنوعی ذہانت کی حامل گاڑیاں جلد ہی سڑکوں پر دکھائی دیں گی، جو خود چلا کریں گی۔ تاہم ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشینوں پر اس انداز سے بڑھتا انحصار انسانی فکری استعداد اور استطاعت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ اس انحصار کو کم کرنا اب خود انسان کے اپنے بس میں بھی نہیں رہا۔