متحدہ لیبر فیڈریشن کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری حاجی پیرزادہ نے درج ذیل مضمون PWC اور FES کے کانکنوں کے لیے صحت و سلامتی کے پروگرام میں پڑھ کر سنایا۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد صنعتی ترقی کے لیے متبادل ایندھن کی تلاش اور اس کو ترقی دینے پر غور کیا جارہا ہے مگر ہمارے ملک کے حکمران مستقبل کے بارے میں نہ سوچتے ہیں اور نہ کوئی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ سب سے سستی بجلی پانی کے ذرائع سے بنائی جاسکتی ہے لیکن ایوب خان کے بعد کسی حکمران نے بھی بڑے ڈیم بنانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جس کی وجہ سے 20 سال سے ملک میں پاور لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور پانی کی قلت ہے، اگر ایوب خان کے دور میں کینجھر جھیل کا منصوبہ مکمل نہ کیا جاتا تو آج کراچی کے شہری پینے کے پانی سے بالکل محروم ہوتے۔ اسی طرح دنیا میں متبادل ایندھن کے طور پر کوئلے کی صنعت کو پاور کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مغربی بنگال بھارت پورے صوبے کو بجلی کوئلے کے استعمال سے فراہم کرتا ہے اور دوسرے صوبوں کو بھی بجلی فروخت کرتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں حکومت کوئلے کی صنعت کو نہ اہمیت دیتی ہے اور نہ اس کی ترقی پر توجہ دی جاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ عرصہ
ملک کا کوئلہ سیمنٹ فیکٹریوں میں استعمال ہونے سے اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ اب یہ صنعت ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی اور اس میں کام کرنے والے محنت کش خوشحال ہوجائیں گے مگر کمیشن مافیا نے ملک کے کوئلے کو استعمال کرنے کے بجائے غیر ملکی کوئلے کو ترجیح دی اور سیمنٹ فیکٹری کے علاوہ بھٹہ خشت میں بھی غیر ملکی کوئلے کا استعمال شروع کیا۔ ماحولیاتی آلودگی کے نام پر 2 ماہ کے لیے پنجاب کے بھٹہ خشت بند کیے گئے۔ جس سے پورے ملک میں کوئلے کی انڈسٹری بُری طرح متاثر ہوئی اور تقریباً 5 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے، لاکھڑا پاور پروجیکٹ کو اگست 2017ء سے بند کیا گیا جس کو محمد جمیل اینڈ کمپنی لاکھڑا روزانہ 8 سو ٹن کوئلہ فراہم کرتی تھی، یہ پروجیکٹ لاکھڑا کول پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور 20 سال سے ملکی کوئلے پر چل رہا تھا۔ اب کہا جارہا ہے کہ لاکھڑا کے کوئلے کے بجائے اس کو بھی غیر ملکی کوئلے پر چلایا جائے گا۔ ان اقدامات اور حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے کوئلے کی انڈسٹری تباہ ہورہی ہے۔
کوئلے کے ذخائر کو سیاسی بنیادوں پر ایسے لوگوں کے حوالے کیا جاتا ہے کہ جو ذہنی طور پر صنعت کاری سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے۔ علاقائی طور پر طاقتور ایسے لوگ کانکنوں کو غلام سمجھ کر تمام قانونی حقوق سے محروم رکھ کر صرف دولت کماتے ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی برائے نام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کوئلے کی صنعت ترقی نہیں کرتی۔ ملک میں صرف لاکھڑا کول فیلڈ میں کام کرنے والے محنت کشوں کو مراعات حاصل ہیں۔ یہاں کے مزدوروں نے مزدور رہنما قموس گل خٹک کی قیادت میں جدوجہد کرکے روزگار کا تحفظ اور مراعات حاصل کی ہیں مگر دیگر صوبوں میں یہ مراعات نہ ہونے کی وجہ سے ہم پر مسلسل باہر سے آنے والے سرمایہ داروں کا دباؤ رہتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر لاکھڑا کول فیلڈ میں مزدوروں کو حاصل مراعات کو قبول نہیں کرتے اور یونینوں کے ساتھ ٹکراؤ کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اگر دوسرے صوبوں میں کام کرنے والے کانکنوں کی یونین مضبوط ہوجائیں تو ان کو فائدہ ہوگا اور ہمارے اوپر یہ منفی دباؤ کم ہوجائے گا، اس کے لیے چاروں صوبوں کا تنظیمی اتحاد بنانا ضروری ہے۔ ہم ملک بھر میں کوئلے کی انڈسٹری میں مائیننگ حادثات کو اجاگر کرکے کانکنوں کی تحفظ کی ذمہ داری پوری کریں گے تا کہ ملک بھر میں 80 فیصد شانگلہ سوات ہر مہینے لاشیں بھجوانے کا سلسلہ کم ہوجائے اور کوئلے کے مزدوروں کے حقوق روزگار کے تحفظ کے لیے ملک گیر اتحاد بنانے میں بھی ہم کامیاب ہوجائیں گے جو بنیادی مسئلہ ہے۔