کانکن لیبر یونین CBA مچھ کے صدر محمد اقبال یوسف زئی نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مچھ لیبر سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں 7 سے 8 ہزار کانکن کام کرتے ہیں اور حکومت بلوچستان کا 50 فیصد معیشت کا نظام کوئلے کی صنعت پر منحصر ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس، لیبر ٹیکس اور DMD ٹیکس مد میں کروڑوں روپے حکومتی خزانوں میں جمع ہونے کے باوجود مچھ کا لیبر کانکن بنیادی سہولیات سے محروم ہے، پانچ ڈسپنسری ہیں جو سب غیر فعال ہیں، 500 مائنز ہونے کے باوجود نہ تو کمپنی کی طرف سے اور نہ حکومت کی جانب سے کوئی الگ ایمبولینس بھی موجود نہیں جو حادثات کی شکل میں زخمی کو فوری طبی امداد کے لیے اسپتال تک پہنچایا جاسکے۔ فرسٹ ایڈ کے لیے RHC سینٹر میں موجود لیبر ڈپارٹمنٹ ہال جو 50 بیڈ پر بلڈنگ ہے جس میں RHC سینٹر کے چوکیدار اپنی بھیڑ بکریاں بند کرتے ہیں اتنی بڑی مائین سیکٹر ہونے کے باوجود بھی ایک مائنز انسپکٹر اور 3 کرومین جبکہ ریسکیو کے آلات و سامان صرف کاغذی کارروائی تک ہی محدود ہیں۔ مچھ انسپکٹریٹ میں ایک بھی برننگ آپریٹس موجود نہیں جبکہ قانوناً 1923ء ایکٹ کے مطابق ہر
مائین مالک کم از کم ایک عدد برننگ آپریٹس کا ہونا لازمی ہے اور قانون کے مطابق ہر تین ماہ بعد ایک پروگرام جو حفاظتی تدابیری آگاہی کا انعقاد ہونا چاہیے جو سالوں سے نہیں ہوا۔ کانکنوں میں اتنی آگاہی بھی موجود نہیں کہ دوران کام ہم کن آلات سامان کے ذریعے اپنی حفاظت اور اپنی زندگی کو محفوظ اور حادثات کی شکل میں کن ہنگامی صورت میں اپنی زندگی کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ ایک سال سے کانکن لیبر یونین CBA حکومتی اداروں اور مائنز اونرز کو ان معاملات پر نوٹس لینے کے لیے کوشاں ہیں لیکن اعلیٰ حکام توجہ نہیں دیتے۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ مچھ کے کانکنوں کے مسائل حل کریں۔