میں انزلیکا ہوں

385

فارحہ کمال
(چوتھی قسط)
اپنی سیٹ پر پہنچ کر میں نے لوط کو سیٹ کے آگے بیسنٹ میں لٹایا۔ وہ گزشتہ تین گھنٹے کی بھاگ دوڑ سے خوب تھک چکا تھا اور دودھ کی بوتل ختم ہوتے ہی گہری نیند سوگیا تھا۔ میرے برابر والی سیٹ پر ایک بڑی عمر کی رشین خاتون بیٹھی تھیں۔ بہت دن بعد کسی سے رشین زبان میں بات کرکے بہت مزا آیا۔ وہ لوط کو دیکھ کر بہت خوش ہورہی تھیں۔ میری دوسری طرف ایک مسلم خاتون تھیں، وہ اپنی فیملی کے ساتھ سینٹ پیٹرز برگ گھومنے کے لیے جارہی تھیں۔ ان سے بھی خاصی بات چیت ہوئی۔ ان کا تعلق اردن سے تھا۔
’’تمہارا بیٹا بڑا پیارا ہے، کیا نام ہے اس کا؟‘‘
’’ہاں یہ بالکل اپنے باپ کی شکل پر ہے، ہم نے اس کا نام لوط رکھا ہے۔‘‘
’’لوط…؟‘‘ ان خاتون کے چہرے کے تاثرات سے ناگواری میرے لیے کوئی نئی نہ تھی۔ اکثر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ اس نام پہ یہی ردعمل دیتے ہیں۔ شروع شروع میں تو مجھے سمجھ نہیں آیا، پھر میں نے یوسف سے کہا کہ اپنے کسی عربی دوست سے پوچھیں۔ پتا چلا کہ عرب لوگ اس نام کو حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی وجہ سے ہم جنس لوگوں کی طرف کنایتاً استعمال کرتے ہیں۔ میں یہ معلوم کرکے حیران رہ گئی تھی۔ مگر مجھے اور یوسف کو اپنے بیٹے کے لیے یہی نام پسند تھا۔ کینیڈا کی لبرل کمیونٹی اور LGBT کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اثرات میں یہاں کسی لوط ہی کی ضرورت ہے جو اس قوم کی اصلاح کے لیے دردمندی سے کام کرسکے، لہٰذا میں نے اعتماد سے جواب دیا:
’’ہاں لوط اللہ کے ایک پیغمبر کا نام تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے بھی تھے‘‘۔ میں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ خاتون یقینا مجھ سے زیادہ باعلم ہوں گی، ان کو یاد دہانی کروائی۔
’’ہاں ہاں مجھے علم ہے…‘‘ پھر اس کے بعد ان کی مجھ سے کوئی زیادہ بات چیت نہ ہوئی، میں بھی اس خاموشی کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی یادوں کے جزیرے میں لوٹ گئی۔
نور سے میری دوستی کافی اچھی ہوگئی تھی۔ وہ اکثر مجھے ساتھ لے جاتی تھی۔ کچھ Rtsreve کے واٹس ایپ گروپس میں بھی مجھے شامل کروا دیا جس سے مجھے خاصی مدد ملی۔ میں اب شادی کرنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے سلیمان کی بھی یاد آتی۔ اس کا آخری خط جو وہ میرے نام ٹیبل پر چھوڑ گیا تھا، اب تک میرے پاس تھا۔ اگرچہ اُس نے اپنے جانے کی وجہ ملازمت بتائی تھی مگر اپنا فون نمبر تبدیل کرنا اور مجھے اس سے بے خبر رکھنے سے میں سمجھ گئی تھی کہ وہ مجھ سے جان چھڑانا چاہ رہا تھا۔ شاید وہ ہمارے مابین بڑھتی ہوئی بدمزگی سے پریشان ہوگیا تھا۔ خیر میں سمجھتی ہوں کہ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا۔ میں اپنے لیے ایسا شوہر چاہتی تھی جو صرف نام کا مسلمان نہ ہو۔ شادی کا مرحلہ ہم نئے مسلمانوں کے لیے خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ کوئی فیملی نہ ہونے کی وجہ سے ولی نہیں ہوتا جو آنے والے رشتے کی جانچ پرکھ کرسکے اور ہمیں نفسیاتی اور معاشرتی لحاظ سے سہارا دے سکے۔ اگرچہ بعض جگہ مساجد کے امام اور بورڈ کے ممبرز مدد کردیتے ہیں مگر وہ خلوص اور اعتماد نہیں ہوتا جو خاندانی مسلمان خواتین کو باپ یا بھائی کی صورت میں ہوتا ہے۔ واٹس ایپ گروپ کی ہی ایک دوست کی مدد سے مجھے یوسف کے بارے میں پتا چلا تھا۔ وہ بھی تھوڑا عرصہ پہلے ہی مسلم ہوا تھا اور شادی کے لیے کسی لڑکی کی تلاش میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے لیے منتخب کرلیا تھا۔ ہماری فون پر بات چیت ہوئی اور میں اپنی تعلیم کا آخری سال مکمل ہوتے ہی پنوکا شفٹ ہوگئی۔ ہمارے نکاح کے ساتھ ہی میری زندگی کے نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ یوسف بھی اپنی فیملی میں پہلے مسلم ہیں، تاہم ان کی فیملی ان کے قبولِ اسلام کے بارے میں جانتی ہے، مجھے ابھی یہ مرحلہ طے کرنا تھا۔ میں نے اپنی شادی کی خبر اپنے والدین کو دی تو وہ تھوڑا ناراض ہوگئے تھے، ان کا خیال تھا کہ میں تعلیم مکمل کرتے ہی واپس سینٹ پیٹرز برگ آجائوں گی۔ مگر ان کی ناراضی زیادہ دن نہ رہی۔ میں نے اپنے حاملہ ہونے کی خبر ماما کو دی تو وہ خوشی سے نہال ہوگئیں اور میرے پاس پہنچنے کے لیے سیٹ بک کرانے میں لگ گئیں۔ اسی دوران میں نے اپنی ایک دوست کی تجویز پر اسلامک آن لائن یونیورسٹی میں کچھ کورسز لے لیے تھے۔ یہ بلال فلپ نے قائم کیا ہے اور بہت عالم فاضل شیوخ اور اسکالرز دین کے مختلف شعبوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس سے میرے علم اور عمل دونوں ہی میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ جہاں ماما کے آنے کی خوشی تھی، وہیں میں بہت فکرمند بھی تھی کہ انہیں کیسے اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں بتائوں گی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے یہاں آنے کا انتظار کروں یا فون پر ہی بتا دوں! پھر میں نے استخارہ کیا اور مجھے لگا کہ مجھے ان کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ استخارہ کرنے کے بعد میں مطمئن تھی۔
سیاٹل سے ایمسٹرڈم کی فلائٹ تقریباً سات گھنٹے کی تھی۔ آنکھ کھلی تو کھانے کی ٹرالی لیے فلائٹ اٹینڈنٹ مجھے کھانے کی طرف متوجہ کررہی تھی۔ اس نے لوط کے لیے چھوٹا سا گفٹ پیک بھی مجھے تھما دیا جو شاید پہلے مجھے سوتا دیکھ کر واپس لے گئی تھی۔ کھانے کی ٹرالی کی وجہ سے جہاز میں خاصی گہما گہمی سی محسوس ہورہی تھی، کچھ لوگ ٹوائلٹ کے باہر لائن لگائے کھڑے تھے۔ پیچھے سے کچھ بچوں کے رونے کی بھی آوازیں آرہی تھیں، مگر شکر ہے لوط آرام سے سو رہا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اپنا کھانا کھایا اور رشین خاتون کو لوط پہ نظر رکھنے کا کہہ کر ٹوائلٹ کی لائن میں لگ گئی۔ ابھی لینڈنگ میں مزید چار گھنٹے باقی تھی۔ میری خواہش تھی کہ میں کچھ اور سو لوں، لہٰذا سیٹ پر واپس جاکر آنٹی کا شکریہ ادا کیا۔ وہ ابھی تک کھانا ختم کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ میں نے سیٹ کی پوزیشن تبدیل کی اور آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ آنکھ بند کرتے ہی ماما کی شکل میرے سامنے آگئی۔ پچھلی دفعہ انہیں دیکھا تھا تو کافی بال سفید نظر آرہے تھے۔ وہ میرے پاس تقریباً ڈیڑھ مہینہ رہ کر گئی تھیں۔ میرے قبولِ اسلام کی خبر نے انہیں خاصا Hurt کیا تھا مگر وہ جانتی تھیں کہ میں انہی کی بیٹی ہوں، جو فیصلہ کرتی ہوں خوب سوچ سمجھ کر کرتی ہوں اور پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کورین ہونے کے باوجود انہوں نے میرے رشین باپ سے شادی کی تو انہیں بھی خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر وہ سب کچھ چھوڑ کر پاپا کی محبت میں یہاں آن بسی تھیں، حالانکہ پاپا سائوتھ کوریا میں بھی رہنے کو تیار تھے۔ وہ دونوں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں کلاس فیلو تھے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اگرچہ کبھی کبھی ماما غم زدہ بھی دکھائی دیتی تھیں مگر مجھے یقین تھا کہ میرا فیصلہ مجھے کبھی نادم نہ ہونے دے گا۔ اصل پریشانی مجھے پاپا کی طرف سے تھی۔ میں اپنے اندر انہیں یہ خبر دینے کی ہمت نہ پاتی تھی… پتا نہیں کیوں؟ (جاری ہے)