عہد کم نظراں اور ولی کی تنہائی

388

خالد معین
پیر کی رات گئے موبائل پر آنے والا میسج دن چڑھے دیکھا تو ایک شدید اُداسی اور دکھ کی لہر پورے وجود پر چھاگئی۔ یہ میسج معروف سینئر صحافی ولی رضوی کے انتقال کا تھا۔ میسج میں لکھا تھا کہ ولی رضوی اپنے تنہا فلیٹ میں مُردہ پائے گئے۔ مجھے یاد آیا کہ ولی رضوی تو ایک زمانے سے جان لیوا تنہائی کا عذاب سہہ رہے تھے۔ گلستان ِ جوہر کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں کئی برس سے ولی کی تنہائی دھمال کھیل رہی تھی۔ ایک نفیس، قابل، پڑھے لکھے، مہذب، معروف صحافی، ہنس مکھ انسان، دوستوں کے دوست اور محفل پسند آدمی کی ذاتی زندگی تنہائی کے شدید کرب سے دوچار تھی، اور اس صورت ِ حال کا مداوا کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بہ ظاہر خوش باش دکھائی دینے والے اس آزاد منش صحافی کی کرب ناک تنہائی پر مزید بات آگے چل کے کریں گے۔
ولی رضوی کراچی یونی ورسٹی میں ستّر کی دہائی میں ایک ایسے باصلاحیت اور جوشیلے مقرر کے طور پرابھرے کہ کراچی بھر میں جلد ہی اپنی جداگانہ پہچان بنا لی۔ وہ پروین شاکر اور ستّر کی نسل کے دیگر نمایاں شعرا کے ساتھ شعرو ادب میں بھی عملی دل چسپی لیتے رہے۔ غزل لکھتے تھے اور خوب لکھتے تھے۔ سناتے کم تھے اور مشاعروں میں تو بہ طور شاعر نہ ہونے کے برابر شریک ہوتے، البتہ بہ طور سامع کراچی کے تمام مرکزی مشاعروں میں سخن فہم کی حیثیت سے اُن کی شرکت رہتی۔ زمانہ طالب ِ علمی کی شہرتوں کو سمیٹے صحافت کے خار زار میں قدم رکھا، ’روزنامہ مشرق‘ سے طویل وابستگی رہی۔ پریس کلب کے سینئر ارکان میں شامل تھے۔ ترقی پسندانہ سوچ رکھتے تھے۔ فیض، جالب، فراز، خالد علیگ اور فہمیدہ کے گرویدہ تھے۔ پروین شاکر کا ذکر اکثر کرتے اور زمانۂ طالب ِ علمی کے واقعات دہراتے۔
ولی رضوی ایک خوش شکل، خوش قامت، خوش ادا، خوش آواز، خوش لباس، بڑے قابل اور بڑے ذہین آدمی تھے۔ اُن کا قد کاٹھ بتاتا تھا کہ وہ اسپورٹس مین ہیں، ممکن ہے اُنھوں نے اپنی نوجوانی میں کچھ کھیل کھیلے بھی ہوں، مگر عملاً تو وہ صحافت، ٹریڈ یونین اور قلم کے کھلاڑی تھے۔ عمر کے آخری دور میں بھی اُن کی جسمانی فٹنس بڑی اعلیٰ تھی، بس تھوڑا سا پیٹ ضرور نکل آیا تھا، تاہم اُن کی وجاہت اور بزلہ سنجی آخر تک برقرار رہی۔ کیا ولی رضوی کی زندگی میں دکھ نہ تھے؟ کیا اُن کی ظاہری بزلہ سنجی، محض اُن کی عادت تھی؟ کیا وہ زندگی کے آخری پندرہ بیس برس اتنے ہی خوش تھے، جتنے بہ ظاہر دکھائی دیتے تھے؟ ان سوالات کے جواب کے لیے ولی رضوی کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ میں اُن کی ذاتی زندگی سے اتنا زیادہ واقف نہیں، البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی، اُن سے الگ تھلگ ایک فلیٹ میں تنہا زندگی گزارتے تھے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اپنے نوجوان بیٹے کی اچانک موت کے بعد وہ اندر باہر سے بجھ سے گئے تھے۔ بہت برس تو انہیں اپنی دیوانگی اور گریہ ناک ہنسی پر کنٹرول تک نہ رہا تھا، لیکن وہ بڑے مضبوط آدمی تھے۔ نوجوان بیٹے کی موت اور اپنے شدید ہارٹ اٹیک کو چند برس قبل ہی سہار گئے تھے لیکن نمایشی مسکراہٹ، روایتی بزلہ سنجی اور عوامی مقامات پر ملن ساری کے سبب بہت دور کے لوگ تو کیا، بہت قریب کے لوگ بھی اُن کے اندر برپا حشر ساماں اذیتوں کا ادراک کرنے سے قاصر رہے۔
جہاں تک پیشہ ورانہ زندگی کی کام یابیوں اور ناکامیوں کا تعلق ہے، میں انتہائی دکھ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ولی رضوی جس معیار اور رتبے کے صحافی تھے، وہ اُنہیں میسر نہ تھا۔ وہ ساز باز، دنیا داری، جی حضوری سے کوسوں دور تھے۔ اس کے باوجود اُنہیں زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے اپنے سے کم حیثیت اور کم رتبہ لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی تھی۔ وہ مشرق اخبار اور جنگ اخبار میں اہم حیثیت کے ساتھ وابستہ رہے اور کئی دہائیوں تک رہے۔ اُن کے تعلقات کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوں تک پھیلا ہوا تھا، مگر وہ دوستوں کے کام تو ضرور آئے، دوست اُن کے کام نہ آ سکے، اور آئے بھی تو اُس طرح نہ آ سکے جیسا اُن کا حق تھا۔
مشرق اور جنگ کے علاوہ بھی وہ کچھ اور اخبارات میں رہے ہوں گے۔ میں اس سے لاعلم ہوں۔ جن دنوں ولی رضوی نے نوّے کی دہائی میں ’جنگ‘ جوائن کیا، وہ ’جنگ فورم‘ کے انچارج تھے، اور کرنٹ افیئر کے علاوہ دیگر اہم ایشوز پر انہوں نے بڑے عمدہ فورم کرائے۔ میں بھی اُن دنوں ’جنگ‘ سے وابستہ تھا۔ اسی دور میں ولی رضوی نے ایک انقلابی قسم کا فیصلہ کیا اور کراچی پریس کلب کی روایتی سیاست پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ کہنہ دیواریں توڑپھوڑ دیں، نئے دریچے کھول دیئے۔ اور اب جو پریس کلب کی نئی سیاست اور نئی آزاد آب وہوا ہے، نیا ماحول اور نیا کلچر ہے، اس کے بنیاد گزار اور بہت سے انقلاب پسند دوست بھی ہوں گے، تاہم اُن سب میں ولی رضوی کا نام کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک نئی حکمت عملی کے تحت کراچی پریس کلب کے الیکشن میں بہ طور جنرل سیکریٹری کھڑے ہوئے۔ اُن کے اس دلیرانہ مؤقف کی نہ صرف زبانی کلامی مخالفت کی گئی بلکہ اُن پر حملے تک ہوئے، تاہم ولی رضوی بڑے مضبوط اعصاب کے مالک تھے، وہ سب جھیل گئے اور فاتح بھی قرار پائے۔ یہیں سے کراچی پریس کلب کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اُنہی کے دور میں برسوں کے بعد نئی ممبر شپ کھلی، اور یہ جو نئی رونق اور نیا میلہ اب پریس کلب میں دکھائی دیتا ہے، اُس کے عقب میں ولی رضوی کا جرأت مندانہ کردار اور درویشانہ شخصیت بھی ہے۔
ولی رضوی کو اس جرأت مندی کی کڑی سزائیں دی گئیں۔ جانے کس پاداش میں ’جنگ فورم‘ سے بے دخل کیے گئے۔ اس کے بعد وہ کئی برس تک رہے تو ’جنگ‘ ہی میں، لیکن زیرِ ِ عتاب رہے۔ اب وہ اخبار منزل سے جنگ کی مین بلڈنگ شفٹ ہوگئے تھے، اس لیے ملاقات کم کم ہوتی تھی۔ کبھی کبھی رات کو ملاقات ہوتی تو اپنی بے بسی اور اوپر والوں کی بے حسی کی روداد سناتے اور پھر ایک قہقہہ لگاتے ہوئے رخصت ہوجاتے۔ پھر ہمارے دوست عزیز عزمی نے جو ’انڈس نیوز‘ چلا گیا تھا، اُنہیں بہ طور نیوز ڈائریکٹر ’انڈس نیوز‘ بلالیا۔ اس کے فوراً بعد عزیز عزمی کی موجودگی میں میری ایک ملاقات ولی بھائی سے ہوئی تو اُنہوں نے روایتی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ انڈس والے گاڑی آفر کررہے تھے مگر میں نے منع کردیا کہ میں تو گاڑی چلانا نہیں جانتا۔ وہ اتنے ہی سادہ اور کھرے آدمی تھے۔ تاہم ’جنگ‘ کی اذیت ناک نوکری کے بعد ’انڈس‘ کی جاب اُن کے رتبے اور تجربے کے مطابق ضرور تھی، مگر وہ اپنے آزادانہ انداز اور کھری طبیعت کے باعث چند مہینے ہی وہاں کام کرسکے۔ پھر وہ ’روشنی‘ نامی ایک نیوز چینل میں چلے گئے۔ اس کے بعد ’ٹی وی ون‘ سے وابستہ ہوگئے، جہاں وہ کرنٹ افیئر کے ڈیلی مارننگ پروگرام میں ریسریچ اور پیپر ورک کی تمام ذمے داریاں کئی برس تک بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔ پھر وہ پروگرام بند ہوگیا اور ولی بھائی ’نیوز ون‘ شفٹ کردئیے گئے۔ یہاں ناصرہ زبیری، اشرف خان اور کاشف رضا مرکزی پوسٹوں پر براجمان تھے۔ ولی رضوی نے یہاں آتے ہی ایک نئی پالیسی اپنائی اور اُنہوں نے اپنے مقام اور اپنے تجربے کے برخلاف صرف جاب کرنے اور کوئی بھی مناسب نامناسب کام کرکے وقت گزاری کے مشغلے کو اپنا لیا، شاید وہ ڈر گئے تھے، اور بے روزگاری کے عفریت کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھے، جس کا سامنا اُنہیں گزشتہ کچھ برسوں میں کرنا بھی پڑا تھا۔ یہاں بھی میرا اور ولی بھائی کا چند برس ساتھ رہا۔ پھر وہ ایک دن چلے گئے اور اس کے بعد ’ایکسپریس نیوز‘ جوائن کرلیا۔ یہ بڑی اچھی جاب تھی۔ ولی بھائی کو ایک زمانے کے بعد بہت خوش اور مطمئن دیکھا۔ نئے لباس، نئی چمک دمک اور زبردست جوش و خروش کے ساتھ وہ جہاں ملتے، کھِلے کھِلے لگتے۔ اسی زمانے میں ایک دو خواتین کے ساتھ تواتر سے نظر آئے۔ اس بار شادی کا ارادہ تھا۔ مجھ سے کہا کہ اب شادی کرنا چاہتا ہوں، اکیلے رہتے رہتے اکتا گیا ہوں۔ ایک خاتون تو شعر و ادب سے وابستہ تھیں، اچھی اور خوش شکل تھیں۔ عمر میں بھی ولی بھائی سے میچ کرتی تھیں۔ ایک اور خاتون بھی ولی بھائی کے ساتھ کچھ سنجیدہ ہوئیں۔ وہ تو بہت زیادہ مناسب، خوش شکل، خوش ادا اور کم عمر تھیں۔ بات پکی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ولی بھائی نے اُنہیں اپنے تقریباً قریبی دوستوں سے، جو اُن دنوں پریس کلب آتے جاتے تھے اور اُن کے دائرے میں شامل تھے، ملوایا، مجھ سے بھی ملوایا اور ہم سب اُنہیں بھابھی کہہ کہ مخاطب کرنے لگے تھے۔ ولی بھائی اُن دنوں واقعی بہت خوش تھے۔ پھر ایک دن بڑے اداس اداس اور اکیلے ملے۔ پوچھا تو کہنے لگے ’’بھئی وہ نیا سلسلہ تو ختم ہوگیا‘‘۔ مزید کریدا تو غم زدہ ہوگئے، کہنے لگے ’’وہ تو فراڈ لوگ تھے، مجھ سے جانے کیا کیا مانگ رہے تھے، میں دنیا دار کہاں، اور اتنا مال میرے پاس کہاں کہ اُن کی ڈیمانڈ پوری کرسکتا!‘‘
میں بھی ’شبیر تو دیکھے گا‘ میں آئوٹ سورس اسٹوریز لکھتا لکھتا ایک دن ’ایکسپریس نیوز‘ پہنچ گیا۔ ایکسپریس نیوز میں ’شبیر تو دیکھے گا‘ کے لیے فوٹیج دیکھنے جاتا تو جاوید صبا اور ولی رضوی سے ضرور ملاقات ہوتی۔
جاوید صبا تو خیر ’شبیر تو دیکھے گا‘ کا مرکزی کردار ہی تھے جب کہ ولی رضوی اُن دنوں ایک نئے کرنٹ افیئر اسٹوریز شو ’آدھی رات تک‘ میں سینئر ریسرچر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ اُن کے ماتحت دو کاپی رائٹر کام کرتے تھے، لیکن شو جتنی توقعات کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اُس کی ریٹنگ اتنی نہیں آرہی تھی۔ پھر ایک دن مجھے اس پروگرام کے لیے آن بورڈ لے لیا گیا۔
مجھے افسوس ہے اور بہت افسوس ہے کہ اس کے بعد ولی رضوی وہاں زیادہ دنوں نہیں ٹک سکے۔ اصل میں مجھے لانے سے پہلے ہی اُنہیں ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا اور اس کے یقینا کچھ اسباب بھی تھے، تاہم مجھے اس کا ذاتی طور پر بہت زیادہ دکھ ہوا اور میں نے ولی بھائی پر اپنی پوزیشن بھی واضح کی، مگر یہ بدقسمتی ہی رہی کہ یہیں سے ولی رضوی کی پیشہ ورانہ زندگی نئے مسائل کا شکار نظر آئی۔ ابتدا میں وہ ’ایکسپریس‘ سے جانے کے بعد مجھ سے کچھ کھنچے کھنچے بھی رہے، کیوں کہ کچھ لوگ انہیں بھڑکاتے بھی رہے، تاہم بعد میں وہ مجھ سے نارمل ہوگئے اور ہم نے مل کے بہت سی خلوت بھری شامیں ساتھ گزاریں۔ ادھر چند برس قبل وہ آرٹس کونسل میں میڈیا ایڈوائزر بھی رہے لیکن شاہوں کی موجودگی میں جی حضوری کے سوا اور کیا چل سکتا ہے، مگر وہ بہ حالت ِ مجبوری وہاں کام کرتے رہے۔ اب سنا تھا کہ ایک چھوٹے سے نیوزچینل میں کام کررہے ہیں، اور پھر خبر آئی کہ وہ اپنے تنہا فلیٹ میں مُردہ پائے گئے۔ دل دکھ سے بھر گیا۔ ساتھ گزارے ہوئے بے شمار لمحات نظروں میں گھوم گئے اور ایک یہ رنج بھی کہ ولی رضوی جیسے بلند حوصلہ، انسان دوست، معیاری صحافت کے عَلم بردار، پریس کلب کے مسیحا، دوست دار اور جانے کیا کیا، اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ولی رضوی کا خلا ایسا خلا ہے، جسے نئے مزاج کی دنیا اور جسے نئے مزاج کے دوڑتے بھاگتے لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے، کیوں کہ موجودہ دور میں اب ایسے لوگ دور دور تک دکھائی نہیں دیتے،اکا دکا ہوں گے بھی تو ولی بھائی کی طرح بے رتبہ اور بے حیثیت زندگی کا طوق گلے میں ڈالے کہیں گھوم رہے ہوں گے۔